حیدرآباد۔ ہر سال 8 مارچ کو دنیا بهر میں خواتین کا دن (انٹرنیشنل ویمن ڈے ) منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر خواتین کی آزادی، حصہ داری اور خود اختیاری جیسے امور اور دیگر موضوعات پر مذاکرات، کانفرنسیں اور بحث و مباحثہ ہوتے رہتے ہیں۔
خواتین سماج کا ایک اہم اور فعال حصہ ہیں ان کے بغیر معاشرے کا وجود اھورا ہے ۔خواتین معاشرتی زندگی کا ایک اہم بلکہ بنیادی ستون ہے ۔ان ہی سے موجودہ اور آنے والی نسلیں تربیت پا کر پروان چڑھتی ہیں ، ساتھ ساتھ ملک و قوم کی قیادت سنبھالنے کی قابل بنتی ہیں ۔
اسلام سے پہلے عورتوں کا تصورصرف لونڈی اور باندی کی حیثیت کا تها اور بہت حد تک صرف گهر کے کاموں تک محدود اور اسے صرف نفسی و جنسی خواہش کو پورا کرنے کا سامان سمجھا جاتا تھا۔ اسلام نے خواتین کو عفت و عصمت اور پاک دامنی کا تصور دیا ہے ۔ان کے لیے پردہ کا نظام دیا ہے ۔ آج دنیا بھر کے موجودہ معاشرہ میں عورت کا تصور ہی بدل گیا ہے ۔ الفاظ و اصطلاحات تو جدید اختیار کیے جاتے ہیں لیکن ان کے ساتھ رویہ اورسلوک وہی پرانا ہوتا ہے جو اسلام سے پہلے روا رکھا جاتا تها ۔ مغرب کے یہاں تو خواتین کی عزت و احترام کا دور دور تک تصور نہیں ہے، اسلام نے عورت کو ماں، بہن، بیٹی، بیوی جیسے روپ میں نہایت ہی معزز رتبے عطا کیے اور ان کے ساتھ اچهے سلوک پر بڑے بڑے اجر و انعام کا وعدہ کیا۔ مغربی ماحول میں بوڑھے ماں باپ اور دیگر رشتہ داروں کو اولڈ ایچ ہوم میں ڈال دیا جاتا ہے، اتنے گہرے رشتے کے ساتھ اور اتنا برا سلوک ….!! مغرب نے خواتین کو برہنہ کر کے گویا دکھاوے کی آزادی تو دے دی ہے؛ اور بہ قول اقبال ؎
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدار یار ہو گا
سکوت تھا پردہ دار جس کا، وہ راز اب آشکار ہوگا
مگر اسی کی وجہ سے عورت بے چین اور ہر وقت پریشان ہے۔ اس کے برخلاف برقع پوش خاتون اپنے آپ کو زیادہ محفوظ اور آزاد محسوس کرتی ہے لیکن صرف برقع ہی ڈھال نہیں بلکہ جو احکامات اسے اپنی پاک دامنی اور حفاظت کےلئے ملے ہیں اس پر عمل پیرا ہونے میں ہی اس کی عافیت ہے ۔
اسلام نے عورت کو کیا حقوق دییے ہیں ؟
اسلام کی نظر میں عورت کی بھی ایک مکمل شخصیت ہے۔ جیسے مرد ہے؛ اسی طرح بغیر کسی تفریق کے دونوں جنس کامل انسان ہے ۔
نیکی اور خیر کے کاموں میں مرد و عورت کو یکساں ثواب و اجر عطا کیا جاتا ہے۔
اسلامی معاشرے میں عورت گھر کی ملکہ ہوتی ہے اور وہ تربیت اولاد کی ذمہ دار بھی ہے۔ یہی اولاد نسلوں کی بقا اور تسلسل کا سبب بنتی ہے۔
عورت پر بالجبر معاشی ذمہ داریوں عائد نہیں کی جاتی۔ ہاں اگر وہ کوئی ہنر جانتی ہیں تو اس کو اپنا ذریعے معاش بنا سکتی ہیں۔
ایک خاتون کو میراث میں حصّہ داری کا بھی حق دیا گیا ہے۔ جب کہ دنیا کے اور معاشروں میں خاتون کی شادی کے بعد اس طرح کا کوئی تصور نہیں۔ اس کے علاوہ ایک خاتون پیسے جمع کرسکتی ہے اور معاشی ذمہ داریاں مرد پر عائد ہوتی ہے۔
ایسی ضرورت جو عورت کے پردے کے بغیر ممکن نہ ہو اس کو خود عورت کرسکتی ہے۔ جیسے خواتین کا علاج ومعالجہ ، تعلیم و تربیت اور دیگر شعبہ جات۔
اظہار خیال اور اپنی رائے پیش کرنے کا حق وغیرہ وغیرہ
بہر حال اسلام نے تو خواتین کو بلند رتبہ عطا کیا لیکن خود مسلم معاشرے میں عورت کا جو عملی کردار ہے وہ بہت حد تک ادا نہیں ہو رہا ہے، موجودہ دور میں خود مسلم سماج میں عورت کی شخصیت کو دبا دیا گیا ہے، یہاں تک کہ شرعی اور جائز کاموں میں بھی خواتین کی شرکت نہیں ہوپاتی ہے۔ اس عملی تضاد پر بدلتے حالات اور ضروریات کے تحت نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔
عبدالرحمٰن پاشا