Tuesday, June 10, 2025
Homeخصوصی رپورٹتحفوں سے لدی بیٹی کے گھر پہنچنے پر فخر نہیں باز پرس...

تحفوں سے لدی بیٹی کے گھر پہنچنے پر فخر نہیں باز پرس ہونی چاہئے

- Advertisement -
- Advertisement -

اطہر معین
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں اور مردوں کو نہ صرف غیر محرم سے حجا ب کرنے کی ہدایت دی ہے بلکہ مسلم عورتوں کو یہود ونصاریٰ کی عورتوں اور ایسی عورتوں سے بھی پردہ کرنے کی تاکید فرمائی ہے جو فخش اور بے حیائی کی باتیں کرتی ہیں۔ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم مرد وعورت کے ایک دوسرے کو چھوجانے کو خنزیر کے چھوجانے سے بدتر قرار دیا ہے مگر آج یہ صورتحال ہے کہ ہمارے لڑکے اور لڑکیوں کو پتہ نہیں چلتا کہ ان کے جسم غیر محرم سے دن میں کتنی بار چھوجاتے ہیں۔ اسلام میں عورت کی آواز کا بھی پردہ ہے۔ انہیں اجنبیوں سے بات کرنے کی ضرورت پڑجائے توایسا لب ولہجہ اختیار کرنے کی تاکید کی گئی جس سے سامنے والے کو انسیت پیدا نہ ہو۔ آج کالج میں زیر تعلیم لڑکے اور لڑکیوں کا اختلاط اس قدر بڑھ گیا ہے کہ مذکورہ بالا تمیز ہی باقی نہیں رہی ہے۔ ماحول اس قدر بگڑ گیا ہے کہ اس لڑکی کو محروم سمجھا جاتا ہے جس کا ایک بھی بوائے فرینڈ نہ ہو۔ کالج کی لڑکیاں فاضل اوقات میں آپس میں ایسی گفت و شنید کرتی ہیں اور ایسے موضوعات پر تبادلہ خیال کرتی ہیں جن پر غیرت مند میاں بیوی بھی بات کرتے ہوئے حیا محسوس کرتے ہیں۔ اتنی جرأتمندی لڑکیوں میں کہاں سے آئی؟ کس نے انہیں واہیات اور فحش کلامی کی تربیت دی ؟ آپ اگر کسی گرلز کالج میں چلے جائیں تو کالج کے احاطہ میں ٹھہری ہوئی لڑکیاں جو فقرے کستی ہیں وہ آپ کے کانوں میں پڑجائے توآپ کی مردانگی شرمسار ہوجائے۔ تعجب ہوتا ہے ان لڑکیوں کو دیکھ کر جب وہ آپس میں گفتگو کرتی ہیں۔ عیسائی مشنری انتظامیہ کے کالجوں میں وقفہ وقفہ سے آزادی نسواں پر لکچرس رکھے جاتے ہیں جن میں مقررین یہ نقطہ پیش کرتے ہیں کہ عورت کوئی جنس نہیں ہے کہ اسے خریدا اور بیچا جائے۔ عورتوں کی بھی اپنی خواہشات ہوتی ہیں اور انہیں اس کا بھر پور حق حاصل ہے اور انہیں اپنی زندگی کے اہم فیصلے کرنے کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا کہ مردوں کو حاصل ہے۔ لڑکیوں کی مرضی کے بغیر ان کا رشتہ طئے کردینے کو قدامت پسندی پر محمول کیا جاتا ہے۔ ایسے افکار و نظریات کا اصل نشانہ اسلام ہی ہوتے ہیں مگر یہ مقررین اسلام کا نہ لئے بغیر ہی اسلامی اصولوں کو نشانہ بناتے ہوئے لڑکیوں کے اذہان کو پراگندہ کردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب والدین ان کا رشتہ طئے کردیتے ہیں توکالج کی تعلیم یافتہ اکثر لڑکیاں تحفظات کا اظہار کرتی ہیں اور بسا اوقات ماں باپ کی پسند کو ٹھکرا بھی دیتی ہیں۔ ٹیچرس اور اساتذہ عریاں لباس کو مقبول بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی لڑکیوں کے لباس کی تعریف کی جاتی ہے جس میں ان کے خدو خال نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری بچیوں میں فلمی اداکاراؤں کے فلموں میں زیب تن کئے ہوئے لباس کا چلن بڑھ گیا ہے۔ لڑکیاں اپنے والدین سے اپنے لباس کی فرمائش بھی نہیں کرتی ہیں بلکہ یہ کہہ دیتی ہیں کہ اس بار عید میں ان کے لباس کے لئے اتنی رقم دے دی جائے۔ اور وہ مطلوبہ رقم لے کر خود ہی جدید فیشن کے مطابق اپنی پسند کا لباس خرید لے آتی ہیں۔ آج تقریباً ہر گھر کی بیٹیاں Sleevelessکپڑے پہننے لگی ہیں مگر اس باپ کو شرم آتی ہے جسے جنت کا دروازہ قرار دیا گیاہے اور نہ اس ماں کو حیا آتی ہے جس کے قدموں کے نیچے جنت قرار دی گئی ہے۔ لباس اس قدر مہین اور چست ہوگئے ہیں کہ ان کپڑوں کے اندر سے جسم کی رنگت جھانکنے لگتی ہے اور اعضاء کے نشیب و فراز محسوس ہونے لگتے ہیں جبکہ ایسے لباس کی مردوں کے لئے بھی اجازت نہیں ہے۔ آج اکثر کالجوں کو آنے والی حوا کی بیٹیوں کے برقعہ کے نیچے سے جینس پئنٹ جھانکنے لگتا ہے۔ ایسا تو نہیں ہے کہ یہ لڑکیاں گھر سے کرتہ پائجامہ پہن کر نکلتی ہیں اور گھر سے باہر نکل کر کہیں جئنس پینٹ اور ٹی شرٹ پہن لیتی ہیں۔ لڑکی مردوں کا لباس اختیار کرتی ہے تویہ کیسے ممکن ہے کہ والدین کو پتہ نہ چلے جبکہ اسلام میں مردوں کو عورتوں کااور عورتوں کو مردوں جیسا لباس اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ جب آپ بچیوں کو اس طرح کی آزادی دینے لگیں تو وہ مزید آزادیوں کی طرف بھاگنے لگتی ہیں اور اس وقت والدین کو بچی پر کنٹرول کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ایک اور وباء ہم میں یہ سرایت کرگئی ہیں کہ ہم ویلنٹن ڈے اور فرینڈشپس ڈے کا بھی اہتمام کرنے لگے ہیں اور لڑکیاں ان واہیات تقاریب کا گھر میں بھی ذکر کرتی ہیں مگر انہیں اس سے روکا نہیں جاتا۔ ان دونوں مواقع اور لڑکی کے برتھ ڈے پر لڑکی کا دامن ان کے دعویدار وں کی جانب سے تحائف سے بھردیا جاتا ہے مگر گھر کے بزرگوں کو یہ توفیق نہیں ہوتی ہے کہ وہ اپنی بچی سے پوچھ لیں کہ انہیں یہ قیمتی تحائف کون دیتا ہے؟ ان تحائف کے ساتھ محبت نامہ بھی ہوتا ہے جس کو یہ لڑکیاں اپنے پرس اور کالج بیاگس میں بڑی حفاظت سے رکھتی ہیں۔ والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کے بیاگس کی انہیں پتہ چلے بغیر وقفہ وقفہ سے تنقیح کریں اور ان کے سیل فونس کے ایس ایم ایس اور کال ہسٹری پر نظر رکھیں۔ متواتر مرتبہ جن نمبرات پر بات کی جاتی ہے ان کے بارے میں پتہ لگائیں کہ وہ کن سے بات کرتے ہیں۔ دل پھینک عاشقوں کی نگاہ الفت اور ان سے تحائف کی آس میں ایک لڑکی ایک سے زائد لڑکوں سے فلرٹ کرنے لگی ہے۔ ہمارے والدین کو یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ کالج کے پاس آنکھ لڑانے والے لڑکے‘ لڑکی کی نگاہ پسندیدگی سے شہ پاکر ان کے گھروں کے آس پاس منڈلانے لگے ہیں۔ اب تو ان عاشقوں نے اپنے محبوباؤں سے ہر وقت رابطہ میں رہنے کیلئے انہیں سیل فونس بھی دلانے لگے ہیں اور لڑکیاں اپنے والدین کو بتائے بغیر سیل فون رکھتی ہیں جن کے فون کو ری چارج یہی لڑکے کرتے رہتے ہیں۔ گھر اور کالج میں لڑکیاں vibration mode پر فون رکھتی ہیں تاکہ وقت بے وقت کال آنے پر گھر والوں اور لکچرر کو پتہ نہ چل پائے۔ رات کے اوقات بستر پر جاتے ہی ان کے محبوب کا کال آتا ہے اور وہ اپنی ماں کے پہلو میں ہی لحاف کے اندر سے گھنٹوں لڑکوں سے باتیں کرتی ہیں اور ماں بے خبر خواب کے مزے لوٹتی ہے۔