حیدرآباد ۔ ہندوستان کا رافیل طیاروں کی خریداری کیلئے فرانس کے ساتھ جو سودا ہوا ہے وہ ہمیشہ سے ہی ایک تنازعہ بنا رہا ہے اور اب ایک مرتبہ پھر سرخیوں میں آگیا ہے۔ جہاں پہلے ہی سی اس معاہدہ اور سودے پر شبہات ظاہر کئے جارہے تھے وہیں اب فرانس میں ایک جج کا تقرر عمل میں لایا گیا ہے تاکہ انتہائی حساس معاملہ کی تحقیقات کی جاسکے۔ ہندوستان میں اس مسئلہ پر اب تک بھی کسی طرح کی تحقیقات نہیں ہوئی ہیں حالانکہ ماضی میں ایک فرانسیسی ویب سائٹ نے اس معاہدہ میں رشوت ستانی کا ادعا کیا تھا۔
ہندوستان میں اس سودے کے ضمن میں مودی حکومت پر کئی الزامات عائد کئے گئے تھے اور یہ کہا گیا تھا کہ حکومت اور اس کے ذمہ داروں اور درمیانی افراد کو بھاری رشوت ادا کی گئی ہے لیکن تمام الزامات کو مسترد کردیا گیا تھا اور کسی بھی طرح کی کوئی تحقیق نہیں ہوئی ہے ۔ کانگریس نے گذشتہ پارلیمانی انتخابات میں رافیل کو موضوع بناتے ہوئے بدعنوانی کا دعوی کیا تھا اورا پنی انتخابی مہم میں اس مسئلہ کو خاص جگہ دی تھی تاہم یہ حکمت عملی کانگریس کیلئے موثر ثابت نہیں ہوئی اور کانگریس کو اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوا ہے ۔
انتخابات کے بعد مودی حکومت کی دوسری معیاد میں اس معاملت کو قصہ پارینہ بنا کر نظرانداز کردیا گیا تھا تاہم اب اچانک ہی یہ مسئلہ ایک مرتبہ پھر سے موضوع بحث بن گیا ہے۔ فرانس میں ایک جج کے تقرر کے ذریعہ اس معاملہ کی تحقیقات شروع ہونے والی ہیں۔ جج کو ذمہ داری دی گئی ہے کہ اس انتہائی حساس معاملت کی تحقیقات کروائی جائیں۔ فرانس میں جج کے تقرر کے بعد ہندوستان میں بھی ایک مرتبہ پھر سے یہ مسئلہ سر اٹھا بیٹھا ہے ۔ کانگریس کی جانب سے ایک بار پھر سے اس مسئلہ پر حکومت کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ کانگریس کے کئی قائدین نے ٹوئیٹر پر اس مسئلہ کو اٹھایا ہے اور کچھ نے تو تواریخ پیش کرتے ہوئے حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔ہندوستان میں تو مودی حکومت کے اس فیصلہ کو درست ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی لیکن اب جبکہ فرانس میں رافیل طیاروں کے معاہدے ،خرید اور فروخت کی تحقیقات کےلئے جج مقرر کردیا گیا تو اب یہ دیکھنا ہوگا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟
فرحت پٹھان