اطہر معین
آجکل مسلم معاشرہ کے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں پر شباب کی جنونیاں‘ شہوت کی مستیاں اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ وہ ایمان کی دہلیز کو پھلانگنے سے بھی گریز نہیں کررہے ہیں۔ ان کے نزدیک ان کی جوانیوں کے تقاضوں کو پورا کرنا ہی مقصد حیات بن کر رہ گیا ہے۔ شائد جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی ان کے نکاح کردئیے جائیں تو ممکن ہے کہ عشق اور ارتدادی شادیوں پر پہرہ لگ جائے چونکہ ازدواجی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد بھی تعلیم کے سلسلہ کو جاری رکھا جاسکتا ہے۔ نکاح میں تعجیل اور تبذیر سے اجتناب نہ کرنے سے سرمایہ دین اور سرمایہ دنیا کے تباہ و تاراج ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہمارے نوجوانوں کی بے راہروی میں ہمارے والدین اور خاندان کے بزرگوں کی گمراہیوں کا بڑا دخل ہے۔ یہ ایک حقیقت ہیکہ ہمارے والدین اور بزرگوں کی مادی سوچ نے ہماری نئی نسل کی شباب کی امنگوں کو پامال کردیا ہے۔ بچوں کے عملی زندگی میں داخل ہونیکے مرحلہ یعنی ’’نکاح‘‘ میں اتنی رکاوٹیں پیدا کردی گئی ہیں کہ نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کی تاکید کے خلاف عمل کرتے ہوئے نکاح کو مشکل اور زنا کو عام کرنیکا ہم موجب بن رہے ہیں جبکہ امت مسلمہ کو تاکید کی گئی کہ نکاح کو آسان کرو کہ زنا مشکل ہوجائے۔ ہمارا یہ حال ہوگیا ہیکہ ایک سنت کیلئے درجنوں خرافات ورسومات میں گھر جاتے ہیں اور ’نومن تیل ہوگا تو رادھا ناچے گی‘ کے مصداق اس وقت تک اپنے بچوں کے نکاح کے بارے میں نہیں سوچتے جب تک ہمارے پاس تبذیری اخراجات اور لہو لعب کیلئے روپے اکٹھا نہ ہوجائیں جبکہ ہادی انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ سب سے بہتر نکاح وہ ہے جس میں مال کم خرچ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ان دنوں ہمارے ہاں بوڑھے اور بوڑھیوں کی شادیاں ہونے لگی ہیں۔ جب تک ہم اس مقدس سنت کیلئے اسلامی اصطلاح ’’ نکاح‘‘ کی بجائے ’’شادی‘‘ کا لفظ استعمال کرتے رہیں گے نکاح کی سنت میں نوابان حیدرآباد کی فراخ روی اور راجپوتوں کی کافرانہ رسمیں ختم نہیں ہوں گے۔ ہماری تقاریبِ نکاح اسلام اور غیر اسلام کا امتزاج بن کر رہ گئی ہیں۔ یہ تقاریب ربر کی طرح کھینچتی ہی چلی جارہی ہیں۔ ہمارے ایک طبقہ میں جوں جوں دولت کی فراوانی بڑھتی جارہی ہے ویسے ویسے تقاریب عقد نکاح میں تبذیر بڑھتاجارہاہے۔یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہم نے اسراف کی بجائے تبذیر کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ جس کی وضاحت بھی ضروری ہے۔ اسراف ضرورت سے زیادہ خرچ کو کہا جاتا ہے جبکہ تبذیر بے موقع خرچ کو کہا جاتا ہے۔ مبذرین ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اپنی جاہ و حشمت کو ظاہر کرنے خرچ کرتے ہیں۔ فضول خرچی سے مال اڑانے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو منع کرتا ہے اور قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ مبذرین تو شیاطین کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار ( کی نعمتوں) کا کفران کرنے والا ہے۔ (سورۃ بنی اسرائیل: 27 )۔ اس کے برخلاف ایک عمومی ذہن یہ بنا ہوا ہے کہ نکاح کرنے سے گھر میں ایک فرد کا اضافہ ہوگا اور پھر سال بھر بعد ہی بچوں کی پیدائش سے گھریلو اخراجات میں اضافہ ہوجائے گا اسلئے اس وقت تک نکاح کے بارے میں نہ سوچا جائے جب تک اپنا بچہ اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہوجائے۔ یہ ایک ناقص سوچ ہے جو اللہ رب العزت پر ہمارے توکل کو ختم کرتی ہے۔ اسی طرح والدین اس نوجوان کو اپنی بیٹی دینا گوارہ نہیں کرتے جو دیندار تو ہے مگر اچھا روزگار نہیں رکھتا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہی لڑکا ہماری بیٹی کی جھولی میں خوشیاں ڈال سکتا ہے جس کا روزگار اچھا ہو اور جس کا بینک بیالنس مستحکم ہو۔ یہی نہیں بلکہ ہم اپنے رب کے وعدہ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو بھی نعوذ باللہ جھوٹا اور غلط سمجھ بیٹھے ہیں کہ نکاح میں برکت ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ بہو آنے سے گھر میں ایک فردکی روٹی کپڑے کا بوجھ بڑھ جائے گا۔ اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے ’’ اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کردیا کرو۔ اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے بھی جو نیک ہوں (نکاح کردیا کرو) اگر وہ مفلس ہوں گے تو اللہ ان کو اپنے فضل سے غنی کردے گا۔ اور اللہ (بہت) وسعت والا اور (سب کچھ ) جاننے والا ہے(سورۃ النور:32 )۔‘‘ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رزق کو نکاح میں تلاش کرو۔ اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہیکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورتوں سے نکاح کرو کیونکہ یہ مال لاتی ہیں۔ حضرت ابن عجلانؓ سے روایت ہیکہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی محتاجی اور تنگدستی کی شکایت کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنے اوپر نکاح کو لازم کرلو۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ سے روایت ہیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں جو اللہ تعالیٰ نے نکاح کا حکم دیا ہے اس میں تم اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرو اور اس نے جو تم سے غنیٰ کا وعدہ فرمایا ہے وہ اسکو تمہارے لئے پورا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اگر وہ فقیر ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے غنی کردیں گے۔ حضرت عمر بن الخطابؓ فرماتے ہیں کہ میں اس شخص پر حیران ہوں جو نکاح کرکے غنیٰ کو طلب نہیں کرتا حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اگر وہ تنگدست ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے غنی کردیں گے۔ اس کالم کے ذریعہدور نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح اور ہماری شادی بیاہ کی تقاریب کا تقابل کرتے ہوئے آسان اور سادہ نکاح کی طرف ترغیب دلانے کی کوشش کی جائے گی اور ساتھ ہی نکاح سے متعلق مختلف امور پر روشنی ڈالتے ہوئے بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جائے گا چونکہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ان رسومات کو نکاح کے جزوئیات سمجھ کر ادا کرتے چلے آرہے ہیں۔
نوجوانوں کی بے راہروی میں بڑوں کی گمراہی کا دخل
- Advertisement -
- Advertisement -