Tuesday, June 10, 2025
Homeخصوصی رپورٹچوڑیوں اور کالی پوت کو سہاگ کی علامت سمجھناکافرانہ سوچ

چوڑیوں اور کالی پوت کو سہاگ کی علامت سمجھناکافرانہ سوچ

- Advertisement -
- Advertisement -

اطہر معین

ہم نے جہالت‘ جذبہ نمائش‘ جبلت تبذیر اور رسوم و رواج کی پرستش کے باعث نکاح کی شکل بگاڑ کر رکھ دی ہے۔ نکاح کی ایک سنت کی تکمیل کے لئے ہم ایک سے زائد تقاریب منعقد کرنے لگے ہیں جو تکلفات سے بھرپور اور بد اخلاقی کا گہوارہبن کر رہ گئی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر خطہ میں تقریب عقد نکاح اور تقریب ولیمہ پر مقامی رسوم و رواج کا سایہ پڑچکا ہے مگر بر صغیر ہند میں مقامی ریت و رواج کا کچھ زیادہ ہی اثر پڑا ہے۔ اکبر بادشاہ کی جہلانہ جبلت اختراعیت نے اسے دین حنیف کو مذاہب باطلہ سے ہم آہنگ کرنے پر اکسایا تھا مگر اس دور کے علمائے ربانی کی سخت ترین مزاحمت نے دین متین کی بنیادوں میں رخنہ پڑنے نہیں دیا مگر بہت سے معاشرتی معاملات میں شاہی بدعات و خرافات داخل ہوکر ہماری زندگی کا ایک حصہ بن گئے ہیں۔ اکبر کے دور میں سب سے زیادہ بگاڑ نکاح کے معاملات میں ہوا۔ راجپوت خاتون کو اپنے حرم میں داخل کرنے کے بعد اکبر کے دربار پر راجپوتانہ چھاپ پڑگئی اور شاہوں و امراء کا دیکھا دیکھی عام مسلمان بھی ان خرافات کو اپنانے لگے۔ حالات بگڑتے بگڑتے یہاں تک پہنچ گئے کہ نکاح کی تقاریب سے بہت سی غیر اسلامی رسومات جڑ گئیں۔ نکاح کی اصطلاح کی بجائیشادی بیاہ جیسی اصطلاحات استعمال کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کیا جانے لگا اور اسی کے ساتھ یہ ذہن بھی کارفرما ہوتا گیا کہ شادی خوشی کا موقع ہوتا ہے اسلئے ناچ گانا‘آتشبازی اور موج مستی کرلینے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ دور نبوت میں نکاح کا پیغام بھیجنا یا اپنے بچوں کے نکاح کیلئے لڑکے یا لڑکی کا انتخاب کرنا پیچیدہ معاملہ نہیں تھا اوریہ امور طئے کرنے میں والدین یا زیادہ سے زیادہ بھائی بہنوں کا ہی دخل تھا اور آج یہ صورت حال ہے کہ درجنوں لوگ ایک سے زائد مرتبہ لڑکی کے گھر پر آدھمکتے ہیں۔ لڑکی کو دیکھنے میں محرم اور غیر محرم کا خیال تک نہیں رکھاجاتا بلکہ لڑکے والوں کا یہ اصرار ہوتا ہے کہ لڑکی کو ان کے گھر کے مرد حضرات کے سامنے بھی پریڈ کروائی جائے جبکہ اسلام میں اس کی اجازت نہیں البتہ شرعی گنجائش ہے کہ رشتہ طئے ہونے سے قبل لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو دیکھ لیں مگر آجکل کوئی لڑکا یہ فرمائش کرے کہ وہ لڑکی کو ایک نظر دیکھنا چاہتا ہے تو بہت سی بھنویں تن جاتی ہیں۔ رشتہ طئے ہوجانے کے بعد سب سے پہلے انجام پانے والی رسم ’’ پاؤ میز‘‘ کی رسم ہے جو نکاح کے سارے امور پر حاوی ہوتی ہے۔ اس تقریب میں راجپوتانہ اور نوابانہ رسوم کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ کہنے کو تو اسے ’’پاؤ میز‘‘ کی رسم کہا جاتا ہے دراصل یہ مرد کے بک جانے کی حتمی شکل ہے جس میں لڑکے کے لگائے گئے بھاؤ کی قیمت ادا کردی جاتی ہے۔ اسی رقم کے بھرّے پرولیمہ انجام دیا جاتاہے۔ ’مال مفت دل بے رحم‘ کے مصداق گھوڑے جوڑے کے نام پر دی جانے والی نقدی ہی سیبعد کے تمام کام انجام دئیے جاتے ہیں۔ اس کی نحوست ہے کہ ایک ٹکہ بھی شائد ولیمہ کے دوسرے دن بچا رہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر بتایا کہ یہ تقریب ایک نوابانہ اور راجپوتانہ رسومات کا امتزاج ہوتی ہے بہت سینکاح سے غیر متعلق امور انجام دئیے جاتے ہیں‘ اس میں لڑکی والوں کی طرف سے لڑکے والوں کو نقدی رقم عطا کی جاتی ہے اور اسی تقریب میں لڑکی کی جوتی اور کپڑوں کا ناپ لے لیا جاتا ہے۔ اکثر گھرانوں میں اس موقع پر لڑکے والوں کی طرف سے بری کے نام پر کھوپرا‘ شکر‘ خشک میوے‘ پان وغیرہ‘مٹھائی کے ڈبے‘ لڑکی کے لئے سرخ و سبز رنگ کا بلاؤز کا کپڑا‘ سبز چوڑیاں وغیرہ لے جانے کا رواج ہے جیسا کہ راجپوتوں اور مارواڑی طبقہ میں ایسے ہی موقع پر خشک اور کچے میوے اور مٹھائیاں لے جائی جاتی ہیں۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہیکہ ہم بھی ہندؤں کی طرح کانچ کی چوڑیوں‘ کالی پوت کے لچھے کو سہاگن ( جس کا شوہر زندہ ہو) کی علامت سمجھ لیا گیا ہے جو خالصتاً کافرانہ سوچ ہے۔ جس خاتون کا شوہر زندہ ہو اور اس کے ہاتھ میں کانچ کی چوڑیاں یا کالی پوت کا مالا (منگل سوتر) نہ ہو تو معیوب سمجھا جاتا ہے بلکہ دیندار گھرانوں کی عورتوں کا بھی یہ وہم ہے کہ ان دونوں ز سے برأت کا مطلب بیوگی ہے۔ ہمارا ایمان اتنا کمزور ہوگیا ہے کہ ہم کانچ کی نازک چوڑیوں اور کالی پوت کے ڈور کو زندگی کے محافظ سمجھنے لگے ہیں۔ عاقدہ کو ہم نے دلہن یا عروس اور عاقد کو دولھا یا نوشہ پکارنے لگے ہیں جسکے نتیجہ میں عاقد کے ناز نخرے اور عاقدہ کی نزاکتیں بڑھ گئیں۔ دراصل ماضی میں لڑکے والوں کیطرف سے نکاح کے موقع پر کپڑے اور زیورات وغیرہ لائے جاتے تھے جس کیلئے لڑکی کے پیر کا ناپ لینے ایک موتیوں کی لڑی لے جائی جاتی تھی اور ساتھ میں ایک خاتون درزی ہوا کرتی تھی جو لڑکی کے کپڑے کا ناپ لے لیا کرتی تھی۔ اسی مناسبت سے یہ رسم پاؤ میز کی رسم کہلائی جانے لگی ہے جبکہ لڑکی والوں کی طرف سے لڑکے کو لباس اور گھوڑا بھیجایا جاتا تھا ۔ عاقد کا گھوڑے پر بیٹھ کرآنے کا رواج بھی ہم میں راجپوتوں سے ہی در آیا ہے۔ اب حالات بدل گئے اور لڑکی والوں کی طرف سے اس کے بدل رقم دے دی جانے لگی۔ جب سے نکاح کیلئے لڑکی کے انتخاب کا ہمارا معیار بدل گیا ہے تب سے والدین اپنی بیٹیوں کو اٹھانے لڑکے والوں کودولت کا لالچ دینے لگے ہیں تاکہ لڑکی کی دینداری‘ جمال اور خاندانی حشمت کو فراموش کرتے ہوئے دولت کی خاطر رشتہ پر آمادہ ہوجائے۔اس کا خطرناک پہلو یہ سامنے آیا کہ ہندؤں کی دیکھا دیکھی ہم اپنی بیٹیوں کو وراثت سے محروم کرنے کے مجرم بن گئے۔ ان تمام رسومات سے پرہیز کی صورت میں ہم نہ صرف توہمات اور دوسرے مذہب کے رسوم اختیار کرنے کے گناہ سے بچ جائیں گے بلکہ ہماری معیشت کا رخ بھی یکسر بدل جائے گا۔ آج کل تو انتخاب کا پیمانہ ہی دولت بن گیا ہے۔ اونچے گھرانوں کی لڑکیو ں کو بہوئیں بناکر لانے کی ماں باپ کی آرزؤں نے بہت سے معاشرتی مسائل پیدا کردئیے ہیں جن کا شکار وہ خود بھی ہونے لگے ہیں۔