سلمان عبد الصمد
’’یایھاالذین اٰمنو ااطیعو اللہ واطیعو الرسول و اولی الامر منکم‘‘(النسا ء :۵۹)
اے لوگوں جو ایمان لانے والے ہو!اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول اور ان لوگو ں کی جو تم میں صاحبِ امر ہوں ۔
بالذات باری تعالی ٰ ہی اطاعت کے لا ئق ہیں :
دستو ر اسلام میں ’’بالذات ‘‘فقط ذات باری تعالیٰ ہی مطاع ہے ۔اس کی ہی پیروی کی جائے گی۔اس کے ہی وضع کردہ تمام آئین و قوانین سرتا پا سر حق اور واجب الاتباع ہیں ۔ ان میں تنقیض کا شائبہ تک نہیں ۔ بر عکس اس کے دنیا کے تما م واضع قوانین کے تمام وضع کردہ اصول و قواعد اور قوانین میں نقض ہے اور نہ ہی وہ مشعل راہ۔ مقتضائے عقل و فہم بھی یہی ہے کہ کسی ادارہ کا بانی یا کسی مشین کا موجد ہی صحیح طرح اندازہ کر سکتا ہے کہ ادارہ یا مشین کو کب کس چیز کی کتنی ضرورت ہو گی یا ہے؟۔فلک بوس پہاروں پر ، تاروں سے اٹے آسمان پر ، بحر و بر ، شمس و قمر ، شجر و حجر پر خدا وند قدوس کی ہی نشانیاں جلوہ گرہیں ، ان پر اس کی خلاقیت و کاریگری کی مہریں ثبت ہیں ۔یہ آب و گل کے چمن ، لیل ونہا ر کی گردش ، نیلگوں آسمان ، عجیب و غریب دیگر مخلوقات اس کی دین اور نوازش و عنایت ہیں ۔انس وجن کی تخلیق اس کی قدرت کاملہ کا مظہر ہے ۔وہی اس کا خالق ومالک حقیقی ہے۔ یہ ظاہر بات ہے کہ وہی ذات ان تمام کے نظام کو مناسب طریقہ سے چلانے کیلئے موزوں ہو گی جو ان کی خالق و صانع ہے۔جب خدا ہی فاطرالسموٰات والا رض ہے تو اسے ہی اندازہ ہے کہ کب کب کن کن چیزوں کی کتنی کتنی ضرورت ہو گی ؟کیا کیا قوانین انس وجن اور دیگرمخلوقات کے لئے مفید وغیر مفید ہو ں گے ؟ یہی وجہ ہے کہ اسی کے قوانین و ضوابط ہی قابل اعتبار اور واجب الا تباع ہیں۔اس ذات حق جل مجدہٗ کے بعد قرآن کے پیش کردہ اصول میں محبو ب الکبریامحمد ﷺ مطاع ہیں ۔
وہ ملک سے افضل ہے انبیاء سے اعلی ہے
رب کے بعد ہی سب سے بڑھ کے کملی والا ہے
چنانچہ ان کے ارشاد ات و فرمودات سر آنکھو ں پر رکھنے کے لائق ہیں ۔لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ،یعنی رسو ل ﷺ کی حیا ت مبارکہ میں تمہارے لئے اسوہ موجو ہے ، وہ تمہارے لئے آئیڈیل ہیں ، نمونہ ہیں ہر میدان میں ،خواہ مسائل عبادت ہو کہ ریا ضت و سیا ست ۔یہی وہ ذات ہے جوو جہہ تخلیق کا ئنا ت ہے۔ان کے واسطہ سے ہی خدا کے احکامات ہم تک پہو نچے۔یہ واضح ہو کہ امت کے فاقہ کش معلم اور بر ہا ن عظیم محمد ﷺ ’’بالذات ‘‘مطاع نہیں بلکہ ’’وما ینطق عن الھو ٰی ان ھو الا وحی یو حیٰ ،اور نہ آپ ﷺ اپنی خوا ہش نفسانی سے باتیں بناتے ہیں، نہ ان کا ارشاد نری وحی ہے (النجم:۴۳)‘‘کے پیش نظر واجب الاتباع ہیں۔تا جدار مدینہ بہ نفس نفیس مطاع نہیں ہیں کی و ضاحت اس مثا ل سے بھی از خو د ہو تی ہے ۔
حضرت رافع ابن خدیج رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
ہجرت مکہ کے بعد جب آپ ﷺ کی تشریف آوری مدینہ ہو ئی ، اس وقت اہل مدینہ درختوں میں ’’تابیر ‘‘کیا کرتے تھے ، (تابیر کہتے ہیں نر درخت کے شگوفہ کو توڑ کر مادہ درخت کے شگوفہ کے اندر ڈال دینا تاکہ پھل زیا دہ آئے)آپ ﷺ نے ان سے دریا فت کیا کہ تم یہ کیا کرتے ہو ں؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم بہت پہلے سے ایسا کرتے چلے آئے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایاکہ شاید تمہارا ایسا نہ کر نا تمہارے پھلوں کے تئیں مفید ہو ۔لہذا انہوں نے اس سال تابیر کے طریقہ کو اختیا ر نہیں کیا ، جس کی وجہ سے پھل کم آئے ، راوی کا بیان ہے کہ ان لو گوں نے دربا رِ رسالت میں اس قضیہ کو پیش کیا تو آپ ﷺ نے فرمایاکہ میں بھی تو انسان ہوں ، چنانچہ میں ایسی بات کا حکم دوں جو تمہارے دین سے متعلق ہوتواسے فی الفور مضبوطی سے پکڑ لواور جب کبھی کوئی بات دنیا وی امور میں بتلاؤ ں تو خیا ل کرنا کہ میں بھی تو انسان ہو ں۔
مسلم شریف کی اس روایت سے یہ حقیقت وا شگا ف ہو تی ہے کہ آقاء دو جہاں محمد ﷺ کی ذات دو باتو ں کی مظہر ہے ، یعنی ان کے ارشادات و فرمودات ایک بحیثیت وحی الہی اور دوسرے بحیثیت انسان کے ہو تے ہیں ، بحیثیت انسان ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی بہت سے باتیں اور مشورے دنیا وی امور کے مد نظر ہو سکتے ہیں ، جن کا وحی الہی سے کو ئی تعلق نہیں ، ایسے احکام کا ماننا بالکل اسی طرح ضروری نہیں جس طرح کہ وحی الہی کو ماننا ازحد لازم وضروری ہے ۔جیساکہ اسی روایت کے اس ٹکڑے ’’انما أنا بشر ‘‘سے بصر احت واضح ہے ، کیونکہ یہ باتیں دنیاوی امور کے مد نظر فقط آپ ﷺ کی صواب دید پر مبنی ہو تی ہیں ۔
جہا نتک تعلق بحیثیت وحی الہی کا ہے تو بہ ہر صورت اس کی بجا آوری ضروری ہے ۔اسی وجہ سے وہ مطاع ہیں ، واجب الاتباع ہیں۔ وہ جو کچھ بھی ہیں مگرپہلے بشر ،لب لبا ب یہ ہے کہ آپ ﷺ بالذات مطاع نہیں بلکہ اللہ کا پیغا م رساں ہونے کی وجہ سے ہیں ۔
اولی الامر کے مصداق:
ان دونوں کی اطاعت و فرما نبر داری کے بعد ازروئے اسلامی نظام ’’اولی الامر‘‘کی اطاعت کی طرف قر آن کا روئے سخن ہے ۔اولی الامر سے مراد کو ن لوگ ہیں؟اس میں مفسرین کا خاصا اختلاف ہے ،مختلف النو ع اقوال ہیں ۔اسی وجہ سے افہام وتفہیم اور اس کی وضاحت کیلئے دیگر مفسرین کے اقوال کا تذکرہ ذیل میں مناسب ہے۔
تفسیر روح المعانی میں یو ں ہے:
(۱)عہد نبوی اور اس کے بعد کے مسلم امراء اس سے مراد ہیں ۔
(۲)اس سے مراد امراء السرایا ہیں ۔
(۳)اس سے مراد اربابِ علم ہیں ، بشمول امام التفسیرحضرت عبداللہ ابن عباسؓ ، جابر بن عبد اللہؓ ، مجاہد ، حسن، عطاء رحمہم اللہ اور جماعت یہی منقول ہے ۔
احکام القران:
ایک روایت میں حضرت جابر بن عبداللہ ، ابن عباس اور حضرت حسن ، مجاہد وغیر ہ سے منقول ہے کہ اولی الامر سے مراد اربابِ علم اور حل وعقد ہیں ، حضرت عباسؓاور ابو ہریرہؓ سے یہ بھی ثابت ہے کہ اس سے مرادا مراء السرایاہیں۔لفظ کی عمویت کے پیش نظراس آیت کے تحت ان تمام کو مراد لینا درست ہے ۔چونکہ امراء دشمنوں سے قتال اور لشکر و سرایا کی تدبیر کے تئیں غور و خوض کرتے ہیں ۔ علما ء حفظِ شریعت اور جائز و ناجائز کی وضا حت میں سرگرم عمل۔لہذا لوگوں کو ان کی اطاعت اور ان کے منصفانہ فیصلہ کے قبو ل کا حکم دیا گیا اور علماء جو کرتے ہیں ان میں وہ ثقہ اور لوگوں کے دین و امانت میں قا بل اعتماد ہو تے ہیں ۔
کشاف میں یو ں مذکور ہے :
اس سے مراد امراء الحق ہیں ، چونکہ ظالم و جابر امراء کا معاملہ خدا اور اس کے رسول سے صاف ہے ، ان کی طرف سے ان پر جو احکام وا جب ہیں اس جانب وہ توجہ بھی نہیں کرتے ۔اللہ اور اس کے رسول کے موافق جو امراء تر جیح عدل ، اختیا ر حق اور ان دونو ں کے امر و نہی کے سلسلہ میں معاملہ کرتے ہیں ، وہ اللہ اور رسول کے درمیان جمع کئے جائیں گے، جیساکہ خلفاء راشدین اور ان کے متبعین۔
تفسیر ابن کثیر :
ظاہر یہی ہے کہ علما ء اور امراء کے ہر صاحب امر اس میں شامل ہیں ۔
صفوۃ التفاسیر :
دلیل اس با ت پر ہے کہ ان حکام کی فرمانبر داری ضروری ہے جو گوشت پو شت ، حس و حرکت اور معنوی اعتبار سے مسلمان ہو ں نہ کہ صر ف صورۃً و شکلاً۔
تفسیر قرطبی کے مختلف اقوال میں حضرت عکرمہؓ کا یہ قول بھی مذ کو ر ہے کہ اس سے مراد شیخین (ابو بکرؓ و عمرؓ )ہیں ۔
شیعہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد ائمہ اثنا عشر ہیں ۔(معارف القرآن ادریس کا ندھلویؒ ج،۲ص ۲۴۰)
تفہیم القرآن:
’’تیسری اطاعت جواسلامی نظام میں مسلمانوں پر واجب ہے وہ ان او لی الامر کی اطاعت ہے جو خود مسلمانوں میں سے ہوں ، اولی الامر کے مفہوم میں وہ سب لوگ شامل ہیں ،جو مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کے سر براہِ کا رہو ں ، خواہ وہ ذہنی وفکری رہنمائی کرنے والے علماء ہوں یا سیاسی رہنمائی کرنے والے لیڈر یا ملکی انتظام کرنے والے حکام ،یا عدالتی فیصلہ کرنے والے جج ، یا تمدنی و معاشرتی امور میں قبیلوں اور بستیوں اور محلوں کی سر براہی کرنے والے شیوخ اور سردار،غرض جو جس حیثیت سے بھی مسلمانوں کا صا حبِ امر ہے وہ اطاعت کا مستحق ہے ، اور اس سے نزاع کرکے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں خلل ڈالنا درست نہیں ، بشر طیکہ وہ خود مسلمانوں کے گروہ میں سے ہو اور خدا اور رسول کا مطیع ہو۔یہ دونوں شرطیں اس اطاعت کیلئے لازمی شرطیں ہیں ‘‘۔
فقہائے مفسرین کے اقوال سے یہ واضح ہو گیا کہ’’ اولی الامر ‘‘سے ارباب علم و دانش ، حل و عقد اور امراء و حکام مراد ہیں ،ان مختلف مفسرین نے اس سے مختلف مفہوم مراد لئے مگر جنہوں نے عمومیت کو مد نظر رکھا انہوں نے کہا کہ اس میں یکساں طور پر سب شامل ہیں ۔ ا ن مختلف اقوال کے ذکرسے مقصود و مطلوب بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ کیا اولی الامر میں ارباب سیا ست کو شامل کیا جا سکتا ہے کہ نہیں؟سیاسی امور کے تفہیم و بصیر ت کی بنیاد پر کیا سیا ستدانوں کی اس میں گنجائش ہے؟جن مفسرین نے اس کے دائرہ کو وسیع کرکے تما م کواولی الامر میں شامل کیا ہے، ان کے اقوال کے مدنظر موجو دہ دور کے حکا م اور اہل سیاست کو ا س میں شامل کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔اس کے بعد یہ بھی پیش نظر رکھیں کہ کوئی فرد ایسا کامل نہیں جو شعبہ جات زندگا نی کے تما م مسائل کے تئیں مناسب طور سے یکساں طریقہ پر تدبر وتفکر کر سکے۔ کوئی سماجی ، ملی ، دینی ، اصلاحی اور تبلیغی مسائل حل کر سکتا ہے تو کسی میں سیا سی وملکی عقدہ حل کرنے کی لیا قتیں و صلا حیتیں بدر جہ اتم موجو د ہو تی ہیں۔ یہ کو ئی ضروری نہیں کہ کوئی فرد ایک کا م کو بحسن خوبی انجام دے تو دوسرے مختلف کاموں اور امور میں بھی ماہر ہو ، اس کے انتظا م و انصرام کیلئے موزوں ہو ۔کیونکہ اختلا ف طبائع فطرت کا تقاضہ ہے ۔یہی وجہ ہے کہ سب کا الگ الگ میدان ہو تا ہے ، اور وہ اس میں ماہربھی ہو تے ہیں ۔کوئی ملی مسا ئل میں بہتر ہو تا ہے تو کوئی سیاست و قیا دت میں۔زندگی کے مختلف شعبے ہیں ۔مختلف اوقات میں مختلف شعبو ں کے متعلق مختلف مؤقر شخصیا ت کی رہنمائی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ان سے الگ الگ طریقو ں سے استفادہ کیا جاتا ہے۔شعبہ ہائے حیا ت کا ایک شعبہ سیا ست بھی ہے۔اہل ایمان کے لئے شعبہ سیا ست سے قطع نظر کرنا زیبا نہیں ۔کیو نکہ اسلام ترک دنیا یعنی رہبا نیت کی تعلیم سے انہیں آراستہ نہیں کرنا چاہتا ہے ، چنانچہ سیا ست کا اسلام سے تعلق ہے ، پس چار ناچار سیاسی میدان کے لئے سیاستدانوں کی ضرورت پیش آئے گی تاکہ ہم حکومتی نظام سے مستفید ہو سکیں ۔کیونکہ فقط عالم دین اور قرآن و احادیث کے ماہرین اس طرح سیاسی عقدہ حل نہیں کرسکیں گے جس طرح سیاستداں۔ہمیں عبا دت و ریا ضت اور دیگر اسلامی مسائل کے لئے علماء دین اورشر ع متین سے رجو ع کرنا پڑ ے گا اور سیا سی و ملکی انتظام میں ارباب سیاست سے ۔اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ہر صا حب امر الگ الگ موقعوں پر قا بل التفات بلکہ قابل تقلید ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ انہیں بھی اولی الامر میں شامل کرنا چنداں تعجب خیز نہیں ۔ کیونکہ ان سے بھی بہت سے ملکی و سیاسی امور اور امیدیں وا بستہ ہو تی ہیں۔جیساکہ حضرت مولانا ابو الا علی مودودیؒ کا اس سلسلہ میں نظریہ بالکل واضح ہے ،اس آیت کی ان کی تفسیر انتہائی اعلیٰ ہے۔کیو نکہ انہوں نے اس کو اتنا عام کردیا کہ ہر ایک صا حب امر (جن سے ہمہ دم زندگی میں واسطہ پڑ تاہے)شامل ہو گئے۔بات در اصل یہ ہے کہ ان کی بھی اطاعت کی جائے گی ،صرف شر ط یہ ہے کہ کسی معصیت کے ارتکا ب کاحکم نہ دیا جائے۔’’لاطاعۃ فی معصیۃ الخالق‘‘ ۔
اولی الامر کی اطاعت کی تاکید :
ام حصین رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ سرورکا ئنات محمد ﷺ نے فرمایا :
’’ان امر علیکم عبد مجد ع یقو دکم بکتاب اللہ فاسمعوالہٗ واطیعوا‘‘(مسلم)
اگر کسی نکٹے کن کٹے غلام کو بھی تمہار احا کم بنا یا جائے اور وہ اللہ کے قانون کے مطابق تم پر حکمرانی کرے تو اس کی اطاعت میں سر تسلیم خم کردو۔
اس حدیث کی تشریح میں سب سے توجہ طلب امر یہ ہے کہ غلام امیر و حاکم بننے کا مجاز نہیں ، باوجو د اس کے آپﷺ کا فرمان ہے کہ ناک کان کٹے غلام کو اگر حاکم بنایا جائے تو وہ بھی وا جب الاتباع ہے،بشر طیکہ وہ قر آن و احادیث کو ملحو ظ نظر رکھ کر حکمرانی کرے۔اس کا جواب یہ ہے کہ آپ ﷺ کا منشا ء یہ
نہیں کہ غلام اس کا مجاز ہے بلکہ امام کی اطاعت کو مؤکد کرناہے۔بایں طورکہ بفرض محال اگر ایسا غلام امام یا حاکم بنے تو اس کی اطاعت کی جائے گی تو جو صحیح سالم فردحکومتی باگ ڈور سنبھا لے اس کی اطاعت بدرج�ۂ اولی کرنا ضروری ہے۔خواہ وہ ذاتی نو عیت سے کتناہی کمتر ہو ۔حکمراں کی اطاعت پر مبنی آقائے ددجہاں ﷺکے بے شمار ارشادات کتب احا دیث میں مذکور ہیں۔اس سلسلہ میں آپ ﷺ نے یہانتک فرما یا ’’ومن اطاعنی فقد اطاع اللہ ومن عصانی فقد عصی اللہ ومن یعص الامیرفقد عصانی ‘‘۔
امیدوار کے اوصاف :
سیاست کو دین سے الگ کردینے کی وجہ سے جہاں بہت سی خرابیاں سامنے آتی ہیں ،وہیں امیدواری کی اہلیت کے تعلق سے ایک بہت بڑی غلط فہمی سیا ست کے شوقین لو گوں کے دماغوں پر چھا ئی ہو ئی ہے۔ وہ یہ کہ کسی بڑی پارٹی کی طرف سے ٹکٹ کا مل جانا ہی امید وار کی حیثیت سے میدان میں قسمت آزمائی کرنے کی اہلیت کی سند ہے ۔ حالانکہ سیا ست کوئی کھیل نہیں، امیدوار کی حیثیت سے سیا سی میدان میں اترنا کوئی آسان کا م نہیں کہ آدمی صرف کسی بڑی پارٹی سے ٹکٹ حاصل کرکے اپنے کو اہل امیدوار تصور کربیٹھے ۔ یاد رکھیں ٹکٹ کا حصو ل اہل امیدوار کی سند نہیں ، بلکہ امیدوار کی حیثیت سے سیا سی گلیاروں میں آنے سے قبل امیدواروں کواپنے اندرون کا جائزہ لینا ضروری ہے، اپنے گریبا ن میں جھانکنا نا گزیر ہے کہ ہمارے اندر ’’قابلیت اور دیا نتداری ‘‘ہے کہ نہیں ؟کیونکہ ان دونوں اوصاف سے متصف ہونا ہی امیدواری کی ’’اہلیت‘‘کی دلیل ہے ۔ شوقین سیاست اپنے اندر ان دونوں صفات کو نہ پائیں اور قسمت آزمائی کے لئے میدان میں اتر آئیں تو در اصل وہ قوم کے خائن ہیں ، غدار ہیں ۔ کا میابی اور ناکامی تو دور کی بات ہے ، صر ف ان اوصاف کے فقدان کی صورت میں قسمت آزمائی ہی خیانت اور غداری کی علامت ہے۔وہ اس طور پر کہ اہل نہ ہو کر بھی ووٹروں پر یہ تاأر دینا کہ ہم ’’اہل ‘‘ہیں ۔ ہماری حمایت آپ کی کے لئے سودمند ہو گی ۔ درج ذیل آیت سے ’’قابلیت اور امانتداری ‘‘کی تائید ہو تی ہے ۔
قالت احداھما یٰأبت استاجرہ ٗان خیر من استأجرت القوی الامین (القصص:۲۶)
ان دونو ں میں سے کسی ایک نے کہا کہ آپ ان (موسیؑ )کونوکر رکھ لیجئے ، کیونکہ اچھا نو کر وہ شخص ہے جو مضبوط ہو اور امانت دار بھی ۔
مختلف تفاسیر پر نظر
صفوۃ التفاسیر
أی ان أفضل من تستاجر من کان قویاً امیناً ،قال ابو حیان : وقو لھا کلام حکیم جامع لانہٗ اذا اجتمعت الکفایۃ والا مانتۃ فی القائم با مر الامور فقد تم المقصود۔
یعنی بہتر نوکر جسے آپ رکھیں وہ تو انا و طاقتور (قابل)اور امین (امانتدار )ہو۔ ابن حیان کہتے ہیں کہ اس نبی زادی کا قول پر حکمت اور جامع ہے ، کیونکہ جب کسی کا م کی انجام دہی کا بیڑا اٹھا نے والا ان دونوں اوٖصاف کا سنگم ہو تو کا م بحسن و خوبی انجا م پا تا ہے ، وہ اوصاف یہ ہیں ، کفایت (قابلیت)اور امانتداری۔
فتح القدیر
انہٗ(موسیٰ)حقیق باستجارک لہٗ لکونہٗ جامعاً بین خصلتی القوۃ والامانۃ۔
فی الواقع موسی ؑ آپ کے یہاں اجرت کر نے کا حق رکھتے ہیں، کیونکہ ان کے اند ر قوت (قابلیت )اور امانتداری کی صفت ہے۔
متذکرہ آیت کے پس منظر کی ایک جھلک
خدا ئے وحدہ لا شریک کی شان نرالی ہے ، لا ثانی اور لا فانی ہے ، اس کی تد بیریں انسانی تما م تد بیروں سے ما فو ق او ر بہتر ہیں ۔ ایک کا ہن کی پیش گوئی ہوتی ہے کہ قبطیوں میں ایک ایسے بچے کی پیدائش ہو گی جو فرعون کی حکومت کو لر زہ بر اندام کر دے گا ۔ اس کی استکبا ری اور غرور و گھمنڈ کی بلند و بالا عمارت زمیں بو س ہو جائے گی ۔ قبطیوں پر فرعونی فوج کی پہرے داری ہے ، ممتا کی پیکر ماں کی گود میں آتے ہی بچے قتل کر دئے جاتے ہیں کہ مبا داکوئی فرعون کی کرسئ اقتدار کو متزلزل کردے خداکی شان دیکھئے ! اس کی تدبیر پر غو رکیجئے کہ کیسے وہ بچہ جس کے قتل کیلئے درا صل بے شما ر ماں کی گودیں ویران ہو گئیں ، کتنے لیل ونہار دریا ئے نیل میں گزارکر ماں کی آغو ش شفقت میں سما جا تاہے ۔ اس کی نگہداشت اور پر ورش وپر داخت کی ذمہ داری اسی کے ہی سر ہے ، جس کی کرسئ اقتدار لرزہ براندام ہو گی ، جس کی آنکھوں میںآنکھ ڈال کر وہ خدا کی وحدانیت کا گیت گائے ، یہ بچہ کوئی اور نہیں حضرت مو سیٰ نبینا علیہ السلام ہیں ، جو فرعون کے قصر میں بڑی آن با ن سے شب وروز گزار رہے ہیں ، طفلی کے ایام ان میں ہی گزارہے ہیں ، جنہیں سبق سکھانا ہے ۔ کس معجزاتی انداز میں پر ورش ہو ئی ، جابر و ظالم ہکا بکا ہیں ۔ کیا سوچ اس کی پرورش میں تھی اورکیا ہو رہا ہے ۔ ابھی نبوت سے سرفرازی نہیں ہو ئی کہ مو سیٰ فرعون کے یہاں خدا کی نغمہ سرائی میں محو ہیں ، وحدانیت کا گیت گاتے ہیں ، فرعون کو وحدانیت کی اس گیت سے اپنی کرسی ہلتی نظر آرہی ہے ، اس کے دماغ میں بھو نچال ہے ، کرے تو کیا کرے ؟قتل کا ارادہ ،مگر بی بی آسیہ جو فر عون کی بیوی ہیں، اس فعل شنیع کی انجام دہی سے رو ک لیتی ہیں۔ لہذا چار نا چار حضرت موسیؑ شہر مصر سے چلے جاتے ہیں ، مگر چوری چھپے مصر آتے ہیں ،جس پر قر آن کی یہ آیت شاہد ہے ، ’’ودخل المدینۃ علی حین غفلۃ من اھلھا …….(القصص:۱۵)‘‘یہ آیت بتاتی ہے کہ ایک دن موسی ٰ علیہ السلام کی آمد ایسے وقت ہو تی ہے جب غفلت کا وقت ہو تا ہے، لو گوں پر نیند کی چادر تنی ہو تی ہے، چاہے قیلو لہ کا وقت ہو کہ یا کوئی؟ ۔دیکھتے ہیں کہ ایک قبطی اور اسرائیلی دست بہ گریبا ں ہے۔ اس نے داد رسی کی چنانچہ حضرت مو سی ؑ نے تنبیہاً قبطی کو ایک گھونسا رسید کیا ، جو کہ فیصلہ کن ثابت ہوا ، اس کی جان نکل گئی۔ دوسرے دن جب وہی اسرائیلی لڑنے بھڑ نے پر آما دہ تھا اورحضرت موسی ؑ سے فریا د کی ، مو سی ؑ اس کی طرف بڑھے کہ یہ کہہ پڑ ا ہاں ! مو سی ؑ ، مجھے بھی اسی طرح قتل کرنے کا ارادہ ہے ، جس طرح تم نے کل ایک قبطی کا خاتمہ کردیا؟ ۔ اس ایک جملہ نے راز فاش کردیا کہ گزشتہ کل کی حقیقت سامنے آگئی ۔ شہر کے سر بر آوردہ شخصیا ت میں مو سی ٰ کے قتل کی چہ می گوئیاں شروع کہ اسی جما عت کا ایک فردآتا ہے اورحضرت مو سی ؑ پر ان کے قتل کی نا پاک سازش کا راز فاش کردیتا ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے مدین کا رخت سفر باندھ لیاہے ، جہا ں کوئی سناشانہیں، کوئی یا ر و مددگار نہیں ، شہر اجنبی ہے ، راستے اجنبی ہیں ، چہرے نا ما نوس ہیں ۔ مد ین پہو نچ گئے خدا خدا کرکے ، ایک ہجوم ہے ، لوگوں کا سمندرہے ، سب اپنی اپنی بکریوں کو پا نی پلا رہے ہیں ، مگر دو شریف زادیا ں بکریاں لئے اژدحام کے خاتمہ کی منتظر ہیں ، حضرت مو سٰی ؑ سے مکالمہ ہو ا ، انہوں نے اپنی طاقت و قو ت کا مظاہر ہ کیا ، بکریوں کو پا نی پلا یا ، لڑکیاں معمول کے بر عکس آ ج پہلے ہی گھر پہو نچ گئیں ، بو ڑھے والد نے پو چھا کیا ماجراہے ؟ تم آج اتنی جلدی کیوں آگئی ؟ بیٹیوں نے ساری کہا نی سنائی ، باپ نے ان کو بلا بھیجا کہ اجنبی کون ہے، کہا ں سے آیا ہے ، ذراہم بھی تو اسے دیکھ لیں کہ کیسا شریف زادہ ہے وہ ؟ایک لڑ کی لجاتی شرماتی مو سیٰ ؑ کے پا س گئی اور عرض کیا کہ ہمارے والد آپ کو بلاتے ہیں ،آپ کی مزدوری ہمارے یہاں با قی ہے، مو سی ؑ اس شہر میں نو وارد ہیں ،چنانچہ اس کے سا تھ ہو لئے ، والد کی خدمت میں حاضرہو ئے ، گفت وشنید ہو ئی ، یہ والد کوئی نہیں ، حضرت شعیب علیہ السلام ہیں ، ان کی ایک بیٹی نے کہا :یٰا بت استاجر ہٗ……۔
مذکو رہ آیت کے پس منظر سے پو ری با ت سامنے آگئی کہ خدانے اسی نبی زادی کے قو ل کو قرآ ن کی زینت بنا دی ۔ فی الواقع قابلیت اور امانتداری ہی وہ جو ہر ہے جس کے بغیر کسی مشن یا کا م کو پا ی�ۂ تکمیل تک بحسن و خوبی پہو نچانا محال ہے، اسی لئے اس بنی زادی نے مو سی ؑ کو اجرت پر رکھنے کی علت قابلیت اور امانتداری بتلا ئی ۔ غو ر کر نے کی با ت یہ ہے کہ یہاں جس فرد کو مزدوری پر رکھا جارہا ہے ، اس میں بھی امانت اور قابلیت کے اوصا ف ڈھو نڈے جارہے ہیں۔ یہ ظاہر با ت ہے کہ یہ مزدور ایک گھر انہ سے وابستہ ہو گا ، اس گھرانہ کے کا م کا ج کی ذمہ داریاں ہی سپر دہو ں گی ، ایک گھرانہ کے امور کی انجام دہی میں بھی قابلیت اور امانتداری پیش نظر ہے ۔ ایک امیداوار، (کا میاب ہو نے کے بعد)جس کے کندھے پر پورے حلقہ کے عوام کا بو جھ ہو گا ، حلقہ کے بہت سے امور میں وہ جو ابدہ ہو گا ، بہت سے نشیب وفراز ہو ں گے ،مختلف مسائل کے تصفیہ کے لئے اسے پیش قدمی کرنا ہو گی ، فیصلہ آپ ہی کیجئے وہ کیسا ہو ؟کیا اسے ’’قابلیت اور امانتداری‘‘کے اوصاف سے متصف ہونا ضروری نہیں؟جی ہا ں ! امیدوار کو ان اوصاف کا صدفیصد پیکر ہو نا ضروری ہے۔گاڑی ڈرائیو کرنے کی قابلیت کسی شخص میں نہ ہو پھر بھی وہ کسی تیز رفتار شاہ راہ پر گاڑی لے کر نکل جائے تو کیا حشر ہو گا اس کا ؟معمولی عقل رکھنے والا بھی از خود اچھی طرح اسے سمجھ سکتاہے۔
قابلیت اور امانتدار ی کے اوصاف سے بالکل عاری بے خوف و خطر سیاسی گلیاروں میں آکر آج فتح کا ہر قلعہ اپنے نا م کرلینے کا خواہا ں ہو تا ہے ، ہوتا بھی یہی ہے کہ ووٹر س بھی سیاست کو دین سے الگ کرکے جیسے جی چاہے اللے تللے امیدوار کا انتخاب کرلیتے ہیں ۔ ان دونوں بے احتیاطی کا نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ بد عنوانیاں عروج پر پہو نچ جاتی ہیں ، کا لا با زاری کا دور دورہ ہو تا ہے ، رشوت خوروں کا بازار گرم ہو جا تا ہے ۔ اس کا عکاس موجودہ سیاست ہے ۔
ایک چشم کشانکتہ:
حضرت موسی ؑ کے عمل نے بے لوث خدمت گار کا ایک اعلی نمونہ پیش کیا ہے کہ مدین آکر بغیر کسی فریا د کے حضرت شعیب علیہ السلا م کی لڑکیوں کی مد دکی ۔ان کی بکر یوں کو پا نی پلا نے میں وہ اجرت کے خواہاں نہیں تھے اور نہ ہی کسی واہ واہی کے متمنی ۔ نہ ہی اپنے اس عمل سے اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کی۔ درا صل ان کا یہ کردارِ جاوداں سماجی ، ملی اور ملکی خدمت گاروں کے لئے ایک احسن نمونہ ہے ، ایک چشم کشاں نکتہ ہے کہ صرف مفاد اور ابن الوقتی کے پس پر دہ کی گئی خدما ت کی کوئی اہمیت نہیں۔موسی ٰ نے بے لوث خدمت گاری کا مظاہرہ کیا تو ایک اجنبی مقام پر پشت پناہ اور ہمت افزا حضرات مل گئے، جائے قرار مل گیا ۔ کوئی خدمت کے ذریعہ غیر معمو لی شہر ت ودولت اور جا ہ و منصب کا طلبگار ہوتو اسے چاہئے کہ بالکل بے لو ث خد مت گاری کا مظاہرہ کرے ، کیونکہ ابن الوقتی کا اثر کوئی دیرپا نہیں ہو تا ہے ۔
آج سیاست کے شوقین بھی عوامی خدمات کی بنیا د پر فتح کا قلعہ اپنے نا م کرنے کے خواہش مند ہو تے ہیں، مو سم انتخاب میں سرما یہ پانی کی طرح فضو لیا ت میں بہاتے ہیں، چند عوامی خدمات انجام دے کر ووٹروں کو لبھا تے ہیں کہ ہم ہیں آپ کے درد مند ، خیر خوا ہ اور بہی خواہ ہیں تو آپ کے صر ف ہم ۔ الیکشن کی آہٹ ہو تی ہے کہ ایسے مفاد پر ست امیدوار مو سم گرما ں میں شہر کی گلیوں تک میں سبیلیں لگواتے ہیں، اگر سردی کا مو سم ہو تو الاؤ کا انتظا م کرواتے ہیں، حلقہ کے ہر مذہبی اور ملی پروگرام میں بڑ ھ چڑھ کر حصہ لے کر عوامی قلوب واذہان پر اپنا سکہ جمانے کی کو شش میں جڑ جاتے ہیں ، مشاہد ہ اور تاریخ گواہ ہے کہ بیشتر ایسے امیدوار نتائج کے اعلان کے بعد کف افسوس ہی ملتے ہیں ، نا کامی کا مرثیہ ان کے لبوں پر رقص کرتا ہے، ’’یعنی خداہی ملا نہ وصال صنم ‘‘اس ناکا می کی دراصل وجہ ،ووٹرس بھانپ لیتے ہیں کہ یہ صر ف بر ساتی مینڈھک ہیں ، عوامی خدمات میں خلوص کا مادہ نہیں ، واقعی ووٹر س تو اس کے لئے سزاوار ہیں کہ ایسے مفاد پرستوں اور تعصب پر ستوں کے دریا ئے سخاوت سے اپنے آپ کوبچائیں اوراس کے شیریں پا نی سے اجتناب کریں ۔
مہمان امیدوار:
عمومی طور پر حلقہ انتخاب کے پیش نظر سیا سی پا رٹیا ں امیدواروں کو میدان میں لاتی ہیں ، حلقہ کے نمایاں چہروں کو ٹکٹیں دیا کرتی ہیں ، ،مگر کبھی ایسا بھی ہو تا ہے کہ تما م قیاس آرائیوں کے برخلاف کسی ایسے امیدوار کا اعلان کردیتی ہے جس کا اس حلقہ سے کوئی واسطہ نہیں ہو تا ، جہا ں سے وہ قسمت آزمائی کررہاہے ۔ ایسے امیدواروں کے لئے ’’مہمان امیدوار ‘‘کا لفظ انتہائی دلنواز ہے ۔ایسے مہمانوں کے میدان میں اترنے کے عموماً دووجو ہات ہو تے ہیں ۔ ایک یہ کہ بذات خود امیدوار کسی بڑی دنیا کا ہیروہو تا ہے، اس کی شہرت اس دنیا کی اچھی کار کردگیوں کی وجہ سے بوئے گل کی طرح پھیلی ہوتی ہے ، مگر سیا سی میدان کا شہ سوار نہیں ہو تا ہے ، لیکن سیاست کے میدان کافاتح ہونا چاہتا ہے ، اس لئے اسے کوئی بڑی پا رٹی ٹکٹ دے یا نہ دے ، بس اچھل پڑتے ہیں میدان میں ، لوگ تو جانتے ہیں مجھے ، مانتے ہیں مجھے۔دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ کوئی بڑی پا رٹی کسی گمنام یا نسبتاً کم شہرت یا فتہ فرد کو امیدوار کی حیثیت سے میدان میں اتاردیتی ہے، حالانکہ سیاست سے اس کا دور کا بھی لگاؤ نہیں ہو تا ہے۔ کیا ایسے امیدواروں کو فقط اس کی شہرت یا بڑی پار ٹی کے ٹکٹ کی بنیاد پر حمایت کردیں گے ؟ اس کے اندر امانتداری اور قابلیت کے اوصا ف کو نہیں ڈھو نڈیں گے، جبکہ ووٹر س سیاست کے تعلق سے اس سے آشنا نہیں ؟ اس سوال کے لئے حضرت موسی ؑ ، حضرت شعیب علیہ السلام اوران کی لڑکیوں کے واقعہ کی تفسیر جو حضرت مولانا مودوی ؒ کی ہے ، پڑھئے ۔
’’یہ ضروری نہیں کہ یہ (موسی ؑ کو اجرت پر رکھ لیجئے )لڑ کی نے اپنے با پ سے حضرت مو سیٰ کی پہلی ملاقات کے وقت ہی کہہ دی ہو ، اغلب یہ ہے کہ
اس کے والد نے اجنبی مسافر کو ایک دو روز اپنے پا س ٹھیرا لیا ہو گا اور اس دوران میں کسی وقت بیٹی نے باپ کو یہ مشورہ دیا ہوگا ‘‘۔
فی الواقع مولانا کی اس رائے کی پوری گنجائش مذ کو رہ آ یت کے عموم میں ہے کہ فی الفور نبی زادی نے حضرت موسی ؑ کو اجرت پر رکھنے کا مشورہ نہیں دیا ہو گا ۔ ان کی اس رائے سے یہ نکتہ نکلتا ہے کہ ’’مہمان امیدوار‘‘کی جو سیاسی میدان میں قسمت آزمائی کرتے ہیں ، فوراً حمایت نہیں کی جائے ، بلکہ اسے سیا ست میں دیکھا جائے کہ وہ اس کے لئے موزوں بھی ہیں کہ نہیں؟۔
اس رائے کا مؤید حضرت یوسف ؑ اور عزیز مصر کا واقعہ بھی ہے ۔ بہت سی روایتیں ایسی بھی ملتی ہیں کہ عزیز مصرنے ’’اجعلنی علی خزائن الارض ‘‘کے فوراً بعد ہی آپ کو یہ عہد ہ نہیں دے دیا ،فی الفور حضرت یو سف ؑ جیل سے نکلتے ہی وزیر نہیں ہو گئے، بلکہ ایک برس بعد جب بادشاہ آپ سے مانوس ہو گیا ، آپ کے اندر کے اوصاف کا معائنہ کرلیا تو وزرات کیا مصر کی حکو مت کی پوری باگ ڈور آپ کے ہا تھوں دے دی، واضح ہو کہ بہت سی ایسی روایت بھی ہیں ، جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ فو راً وزرات سے سرفراز کئے گئے ، اسی کی طرف بیشتر مفسرین کا رجحان ہے ۔
کیاجائز ہے عہدہ کیلئے میدان میں از خود آنا:
قابلیت اور امانتداری یہ دونوں وہ اوصاف ہیں جن سے ایک اہل امیدوارکو متصف ہو نا لا زم وضروری ہے ، بالکل دل کو لگتی ہے با ت یہ ۔مگر یہ سوال ہے کہ ان دونوں اوصاف سے متصف فرد کو یہ حق پہونچتاہے کہ وہ از خود سیاسی گلیاروں میں آجائے ؟ کیا اس کا خود سے میدان میں اتر آنا قر آنی نقط�ۂ نظر سے حق بہ جانب ہے ؟ جبکہ حضرت مو سی ؑ اور شعیب کے واقعہ سے عیاں ہے کہ جس کو مزدوری پر رکھا جارہا ہے اس کی جانب سے پہل نہیں ۔اس سوال کے جواب کے لئے آئیے قر آن و احادیث پر گہر ائی سے نگاہ ڈالتے ہیں ۔
قال اجعلنی علی خزائن الارض انی حفیظ علیم (یوسف)
کہازمین کے خزانوں کا مجھے نگہبان بنا دیجئے کیونکہ میں موزوں اور با خبر ہو ں ۔
صفوۃ التفاسیر:
یعنی حضرت یوسف ؑ نے عزیز مصر سے کہا کہ زمین کے خزانوں کا مجھے نگہبان بنادیجئے ، کیونکہ میں اس کے لئے موزوں اور خوب خوب با خبر ہو ں ، یعنی آپ مجھے جو عہدہ دیں گے اس پر امین ہو ، خزانہ کے صحیح تصرف سے باخبر ہو ں ، بلا شبہ انہوں عہدہ در اصل اس غرض سے طلب کیا کہ عدل پسندی اور حق و بھلائی کا سکہ جمائیں گے ، ہا ں!یہ تز کی�ۂ نفس کے قبیل سے نہیں ہے۔
فتح القدیر تہذیب ابن کثیر :
انہوں نے بذات خود اپنی تعریف کی، ایسا کرنا آدمی کے لئے اس وقت جائز ہے جبکہ اس کی لیا قت و صلا حیت واضح نہ ہو ،انہوں نے ’’حفیظ ‘‘کا بھی تذکرہ کیا ہے ، یعنی ایسا امانتدار خازن کہ جو ذمہ داری لی ہے اس میں علم و معرفت کے اعلی مقام پر فائز ہے ۔
بیضاوی:
عہدہ طلبی اور اس کے تعلق سے قابلیت کے جواز اظہار کی دلیل اس آیت میں موجود ہے ۔
روح المعانی :
اس آیت میں اس کے جواز کی دلیل ہے کہ جب قابلیت پوشیدہ ہو تو آدمی (کسی کام کے لئے )بذاب خود دیا نتداری کے ساتھ تعریف کر سکتاہے ، نیز عہدہ طلبی بھی جبکہ طلب کرنے والا عدل کے قیا م اور احکام شریعت کے نفاذ پر قادر ہو ۔
کشاف کے حوالہ سے علامہ مودودیؒ لکھتے ہیں :
حضرت یوسف ؑ نے اجعلنی علی خزائن الارض جو فرمایا تو اس سے ان کی غرض صر ف یہ تھی کہ ان کو اللہ تعالیٰ کے احکام جاری کرنے اور عدل پھیلانے کا موقع مل جائے اور وہ اس کا کو انجام دینے کی طاقت حاصل کرلیں ، جس کے لئے انبیاء بھیجے جاتے ہیں، انہوں نے بادشاہی کی محبت اور دنیا کی محبت اور دنیا کے لالچ میں مطالبہ نہیں کیا تھا ، بلکہ یہ جانتے ہوئے کہا تھا کہ کوئی دوسرا شخص ان کے سوا ایسا نہیں جو اس کا م کو انجا م دے سکے ۔
تفسیر عثمانی:
..نیز ایک آدمی اگر نیک نیتی سے یہ سمجھے کہ فلا ں منصب کا میں اہل ہو ں اور دوسروں سے یہ کا م نہیں اچھی طرح بن نہ پڑے گا تو مسلمانوں کی خیر طلبی اور نفع رسانی کی غرض سے اس کی خواہش یا درخواست کر سکتاہے اور حسب ضرورت اپنے لیا قت کا اظہار بھی ۔
اس آیت کے ضمن میں مفسرین کے جتنے اقوال ہیں ، ان سے یہ واضح ہو تا ہے از خود عہدہ طلب کرنا جائز ہی نہیں بلکہ عہدہ کے تعلق سے صلاحیت و قابلیت کی وضاحت بھی جائز ہے ، مگر شرط یہ ہے کہ عہدہ کے طلبگار کا منشا فتنہ وفسا د کو ہوادینا ، شہرت و نمود اور عیش وعشرت نہ ہو ، محض ذاتی مفاد کی بنیاد پر موزوں اور قابل ہو کر بھی عہدہ طلبی جائز نہیں۔ چنانچہ مذکورہ آیت اور اس پر مفسرین کے اقوال سے یہ واضح ہو تاہے کہ زمانہ الیکشن میں ازخود امیدوار کی حیثیت سے میدان میں آنا غلط نہیں، بشرطیکہ اس کے اندر قابلیت اور دیانتداری کے اوصاف ہو ں ، نیز سچائی کے ساتھ اپنے اوصاف اور خوابیدہ صلاحیتوں سے عوام کو آشنا کروانا غلط نہیں ، تاکہ وہ اس کی صلاحیت و قابلیت کی بنیا د پر حمایت کرے اور اس کی کا میا بی کی صورت میں حلقہ کے عوام کا بھلا ہو سکے ۔ فی الحقیقت حضرت یو سف ؑ نے بھی عوام کی بھلائی کے پیش نظر عزیز مصر سے عہدہ کی درخواست یا اس کا مطالبہ کیا تھا ، کیونکہ انہیں کا مل یقین تھا کہ اس عہدہ کے لئے کوئی دوسرا اتنا موزوں اور اہل نہیں جتنا کہ میں ۔
عہدہ طلبی اور احادیث :
عہدہ طلبی یا بالفاظ دیگر امیدوار کی حیثیت سے میدان میں آکر قسمت آزمائی کرنا کیسا ہے؟ ازروئے قران اس کی تفصیل مذکور ہے، مگر آئیے اسی تناظر میں احادیث پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں :
عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ نے فرما یا :
’عہدہ طلب مت کرو ، طلب کی بنیا د پر اگر تمہیں عہدہ دیا گیا تو تم اس کے سپرد کردئے جاؤگے (یعنی تمہاری کسی مسئلہ میں مدد ونصرت نہیں ہو گی، پورا کاپورا معاملہ تمہارے سپرد ہو گا ، اس کا بار تمہارے اوپر ہی ہوگا )بغیر طلب کئے کوئی عہدہ اگر مل جائے تو تمہاری مدد کی جائے گی۔
ابو مو سیٰ اشعریؓ کہتے ہیں میں اور میرے دو رشتہ دار میں دو شخص بار گاہِ رسالت میں حاضر ہو ئے ، ان میں سے ایک نے کہا :
’’یا رسول اللہ امرنا علی بعض ماولاک اللہ ، وقال الاخر مثل ذالک ، فقال انا واللہ لا نولی علی ٰ ھذالعمل احداًمالہٗ حرص علیہ وفی روایۃ قال لا نستعمل علی عملنا من ارادہ ‘‘(متفق علیہ)
اے رسول اللہ ! یوں تو آپ کو اللہ نے ہر چیز پر حکمرانی دی ہے ، ہمیں بھی کسی عہدہ پر فائز کر دیجئے ، کوئی ذمہ داری دے دیجئے ، دوسرے نے بھی کچھ ایسا ہی کہا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا ، واللہ ہم کسی بھی حریص کو کوئی عہدہ نہیں دیتے ، دوسری روایت میں ہے کہ ہم اپنے معاملہ میں کسی ایسے شخص کو عہدہ نہیں دیتے جو اس کا خواہا ں ہو ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
بلاشبہ تم لو گ جلد ہی سیاست و قیا دت یعنی عہدہ کے تئیں حرص کرنے لگو گے اور یہ بروز قیا مت باعث ندامت ہو گا ، حکومت وسیادت دودھ دینے والی عورت ہے تو دودھ چھڑانے والی بھی ،(مطلب دودھ پلانے والی سے یہ ہے کہ دراصل یہ تشبیہ ہے فرحت و مسرت سے ۔ یعنی جب کسی شخص کے پا س عہدہ و سیا دت آتی ہے تو اس کو یہ دودھ پلانے والی عورت کی طرح بھلی معلوم پڑ تا ہے ، اس میں اس کیلئے کشش ہو تی ہے ، مگر جب عہدہ ہا تھ سے چلی جاتی ہے ، موج و مستی کے ایا م کا خاتمہ ہو جاتا ہے، کوئی دوسرا اس پر براجمان ہو تا ہے تو دودھ چھڑادینے والی عورت کی طرح برا معلوم پڑتا ہے ، نکتہ ا س میںیہ ہے کہ مردِ بینا اور شاہین صفت انسان کویہ زیب نہیں دیتا کہ وہ حسرت ویا س پر یقین رکھے یعنی عہدہ کے حصو ل کے لئے حدود کو پھلانگے۔ )
مذکورہ حدیث سے یہ پتا چلتا ہے کہ عہدہ طلبی قطعاً جائز نہیں ، مگر قر آنی نقطۂ نظر سے عہدہ طلبی یعنی امیدوار کی حیثیت سے میدان میںآنا جائز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سلسلہ میں قرآن و احادیث میں تضا دکا پتہ چلتا ہے۔ مگر یا د رکھیں کہ بظاہر دونوں میں تو تضاد ہے مگر فی الحقیقت کوئی تضاد نہیں،و ہ اس طرح کہ صرف حرص و ہوس کی بینا د پر شہرت و نمود کے لئے میدان میں آنا ہر لحاظ سے غلط ہے ، صرف اپنا الو سیدھا کرنے کی غرض سے عہدہ طلب کرنا کسی بھی نگاہ سے صحیح اور دل کو لگتی با ت نہیں ، تو بھلا قرآن اس کی اجازت کیسے دے سکتاہے ؟۔جہانتک ایسی احادیث کا تعلق ہے جس میں آپ ؐ نے کہا کہ جو کوئی عہدہ طلب ا س کو میں نہیں دیتا ، در اصل عمو ماً کسی بھی کا م کے لئے جب کوئی اپنے آپ کو پیش کرتا ہے تو اس میں تکبر و گھمنڈ اور شہرت و نمود حاصل کرنے کا عنصر غالب ہوتا ہے، اسی لئے شاید آپ نے ایسا فرمایا تاکہ آدمی پہل کرتے ہوئے کچھ سو چے ،کچھ سمجھے اور اندرون کا جائزہ لے ۔ یہ نہ ہو کہ صرف جذبا ت کی رو میں بہہ کر فوراً میدان میں اچھل پڑے ۔ مشاہدہ بھی آج ایسا ہی ہے کہ لا ئق اور قابل نہ ہونے با وجود بھی بے شمار افراد اپنے آپ کو موزوں سمجھ لیتے ہیں۔ایسے ہی افراد کے تعلق سے درا صل ایسی روایا ت ہیں ۔
لباب یہ ہے کہ اگر آدمی قابل اور امانتدار ہو تو عہدہ طلب کرسکتاہے ،یعنی امیدوار ہو کر میدان میں آسکتاہے، کیونکہ اہل امیدوار کے حق میں مما نعت نہیں، ممانعت تو تما م اوصاف سے خالی خو لی کے حق میں ہے، اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہو تی ہے :
حضرت ابو ذرؓ فرما تے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ سے کہا :
مجھے آپ کوئی عہدہ کیوں نہیں دے دیتے ؟ حضرت ابو ذرؓ کہتے ہیں کہ میرے اس طرح کہنے پر آپ ﷺ نے میرے مونڈھے پر ہا تھ مارتے ہوئے فرمایا کہ :اے ابو ذر ! تم نا تواں ہو اور یہ عہدہ اللہ کی امانت ہے اور یہ قیامت میں با عث ندامت ہے، رسوائی ہے ، پشیمانی ہے ۔ البتہ یہ کہ جس شخص نے اس سرداری کو حق کے ساتھ حاصل کیا اور اس حق کو اداکیا جو اس سرداری کے تعلق سے اس پر ہے ، اس کیلئے ندامت نہیں۔ ایک دوسری روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرما یا میں تمہیں نحیف ونا تواں تصور کرتا ہو ں، میں تمہارے لئے اس چیز کو پسند کرتا ہوں جو میں اپنے لئے ۔ تم دوآدمیوں کا بھی سردار و حاکم مت بننا اور یتیموں کے ما ل کا نگراں بھی ۔
مذکورہ حدیث کے کئی ایک جملے تشریح طلب ہے، سب سے پہلے یہ کہ آپ نے حضرت ابو ذر سے فرما یا کہ میں تمہیں نا تواں اوکمزور تصور کرتا ہو ں ،اس لئے تمہارے اندر کسی عہدہ کے بو جھ کو اٹھا نے کی سکت نہیں اور میں اپنے لئے جو پسند کرتا ہو ں وہی تمہارے لئے بھی ۔ اس سے تو یہ پتا چلتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ بھی کسی عہدہ کے حق دار نہیں تھے ، آپ کے اندر بھی عہدہ کی ذمہ داری نبھانے کی سکت نہیں تھی ، اسلئے تو فرمایا ابوذر تمہارے لئے عہدہ پسند نہیں۔کیا یہ حقیقت ہے کہ آپ ؐ بھی کسی عہدہ کی ذمہ داری سنبھالنے کا استحقاق نہیں رکھتے تھے ، اگر تھے تو پھر آپ ؐ نے ابو ذرؓ سے ایسا کیوں کہا ؟۔
’’جو اپنے لئے پسند کرو وہ اپنے بھائی کیلئے بھی‘‘درا صل یہ جملہ کچھ اس طرح کا ہے جو انتہائی وسیع مفہوم رکھتاہے ، مگر آدمی سمجھنے سے بالعموم قاصر رہتے ہیں ، وہ بس مساویا نہ کردار اداکرنے کی دھن میں بسااوقات بے راہ روی کے شکار ہونے لگتے ہیں ،اس مساوات کا منشا دراصل یہ نہیں کہ کسی کو آم پسند ہو تو وہ اپنے بھائی کیلئے آم ہی پسند کرے ، جبکہ اس کے بھائی کو اس وقت سنترہ کی ضرورت یاچاہت ہے ۔ اس کا مقصد یہ نہیں کہ آپ پچیس برس کے ہیں اور آپ کا لبا س کوئی پانچ میٹر میں تیا رہو تا ہے ، مگر آپ کا بھائی دس ہی برس کا ہے اور آپ کہنے لگیں کہ اس بچہ کا لبا س بھی پانچ میٹر میں تیا رکرواؤں گا ۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ جو جس لائق ہو اس کو اسی کے لائق کچھ دیاجائے ، اس کی خوشی کے پیش نظر دیا جائے ۔ پھر یہ مثالبھی، آپ کو اپنی برائی پسند نہیں، آپ کو یہ پسند نہیں کہ کوئی آپ کے اوپر کیچڑ اچھا لے ، اسی طرح دوسروں کے لئے بھی سوچیں کہ کوئی کسی کے دامن کو داغدار نہ کرے، اس کی ہنسی نہ اڑائے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذرؓ سے کہا کہ تم ناتواں ہو ، عہدہ کی ذمہ داری نہیں اٹھا پا ؤ گے ۔ ظاہر با ت ہے کہ اگر کوئی عہدیدار عہدے کے تعلق سے صحیح کردار ادانہ کرے تو اس کی فضیحت ہو گی ، اس کو لعن طعن کیا جائے گا ، اس کی برائی ہو گی ، یہاں بھی غور کیجئے کہ حضرت ابو ذرؓ ناتواں ہیں، وہ عہدہ کی ذمہ داری کے تعلق سے سرگر م نہیں رہ پاتے تو کوئی بعید نہیں کہ ان کی بھی رسوائی ہوتی ، آپ ﷺ کو یہ پسند نہیں تھا کوئی میرے اوپر کیچڑ اچھالے ، چنانچہ انہیں یہ کیسے پسندہو سکتاتھاکہ آپ کے اسلامی بھا ئی کی فضیحت ہو ، ان کی رسوائی ہو ۔ یہی وجہ ہے آپ کے اس جملہ کا کہ جو مجھے پسند ہے ،وہی تمہارے لئے بھی ۔
مرکزی نکتہ اس حدیث سے نکلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ نے حضرت ابوذرؓ کو عہدہ طلبی پر کچھ نہیں کہا ، بلکہ یہ فرمایا کہ عہدہ کی ذمہ نبھانا تمہارے بس کا نہیں، تم نا تواں ہو ۔ یعنی اگر ان کے اندراس تعلق سے قابلیت ہو تی ، وہ ناتواں نہ ہوتے ، تو کوئی بعید نہیں کہ آپ ان کو کوئی عہدہ دے دیتے ۔ یہیں سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ حدیث میں قابل اور امانتدار امیدوار کے لئے ممانعت نہیں ۔ لہذا اگر کوئی فرد لا ئق ہو، توانا ہو ، امانتدار ہو تو امیدوار کی حیثیت سے میدان میںآسکتاہے اور ساتھ ہی ساتھ عوام سے یہ کہہ سکتاہے کہ آپ ہماری حمایت کریں ، مجھے کامیاب بنائیں ۔
آیت’’اولی الامر ‘‘اور اربابِ سیاست
- Advertisement -
- Advertisement -