ادارہ سیاست کے زیر اہتمام ’’دستور کا تحفظ‘‘ پر توسیعی لکچر۔ مودی حکومت کی کارکردگی اور میڈیا کے رول پر کنہیا کمار کی شدید تنقید۔
حیدرآباد۔ سابق صدر جے این یو اسٹوڈنٹس یونین ڈاکٹر کنہیا کمار نے کہا کہ ملک کو ایک اور غلامی کی طرف دھکیلنے کی منصوبہ بند کوششیں کی جارہی ہیں جس کے حصہ کے طور پرہمارے اذہان پر قبضہ کیا جارہا ہے۔ ہماری سوچوں کو فرقہ پرست بنایا جارہا ہے۔ جھوٹی باتیں پھیلائی جارہی ہیں اور ایسا ماحول تیار کیا جارہا ہے کہ ہم خود ہی قصور وار سمجھ بیٹھیں۔ ڈاکٹر کنہیا کمار یہاں سندریا وگنان کیندر میں ’’تحفظدستور‘‘ پر توسیعی لکچر دے رہے تھے جس کا اہتمام روزنامہ سیاست نے کیا تھا۔ جناب زاہد علی خان ایڈیٹر سیاست نے تقریب کی صدارت کی۔ مسٹر کنہیا کمار نے کہا کہ ہمارے ذہنوں کوغیر حقیقی باتوں کو قبول کرلینے کے لئے آمادہ کرنے متواتر غلط باتوں کو پھیلایا جارہا ہے۔ پہلے انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کو استعمال کیا گیا۔ تنڈولکر کے ذریعہ انورٹر بیچنے کی کوشش کی گئی تو کبھی یہ دعویٰ کیا گیاکہ فیر اینڈ لاؤلی لگانے سے چہر ہ کے رنگ گورا ہوتا ہے تو کبھی گھی کو خالص دیسی گائے کا گھی کے نام سے پتانجلی کا گھی بیچا جاتاہے۔ انہوں نے کہا کہ اب اپنے مقاصد کو پانے کے لئے ذرائع ابلاغ کو استعمال کیا جانے لگا ہے۔ مسٹر کنہیا کمار نے کہا کہ ملککوپارلیمانی جمہوریت کی بجائے صدارتی جمہوریت کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔اس کا اصل مقصد کارپوریٹ شعبہ میں موجود اپنے چند دوستوں کو فائدہ پہنچانا ہے ۔ اس طرح اس ملک کو خاموشی سے ڈکٹیٹر شپ کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ یہ سوال کھڑا کیا جارہا ہے کہ مودی نہیں تو کون ؟انہوں نے کہا کہ یہ کانگریس کے منتخب ارکان پارلیمنٹ پر انحصار کرتا ہے تو وزارت عظمیٰ کے عہدہ کے لئے وہ اپنوں میں سے کس کا انتخاب کرتے ہیں۔ انہوں نے استفسار کیا کہ مودی سے قبل ایسا سوال کیا کبھی پوچھا گیا؟ انہوں نے کہا کہ ٹیلی ویژن چیانل پر تین ہزار روپے ادا کرتے ہوئے ایک ایسے فرد کو لایا جاتا ہے جس کے سر پر ٹوپی اور چہرہ پر داڑھی سجی ہوتی ہے، جس کو مسلمانوں کانمائندہ بنایا جاتا ہے اور اس کے مقابل ایک ایسے شخص کو لایا جاتا ہے جس کی پیشانی پر ایک لمبا سا تلک ہوتا ہے جو ہندؤں کا نمائندہ بن کر بیٹھتا ہے اور درمیان میں اینکر ہوتا ہے اور یہ تینوں بحث کرتے ہیں کہ ملک کا وزیر اعظم کون ہونا چاہئے اور ان دو کرائے کے ٹٹوؤں کی رائے کو دو فرقوں کی رائے پر محمول کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک سازش کے تحت جس میں میڈیا کا اہم رول ہے، عوام کو درپیش اصل مسائل کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لئے غیر اہم موضوعات کو چھیڑا جاتا ہے اور بے فیض مباحث کئے جاتے ہیں۔ جبکہ اصل مسائل یہ ہیں کہ اس ملک کا نوجوان بے روزگار ہے، کسانوں کو ان کی فصل کی اقل ترین قیمتیں نہیں مل پارہی ہیں اور وہ خود کشی کررہے ہیں، عوام کے کروڑ ہا روپے بینکوں سے قرض لے کر لوگ ملک سے فرار ہورہے ہیں۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی آڑ میں متمول گھرانوں کو فائدہ پہنچایا جارہا ہے۔ مسٹر کنہیا کمار نے کہا کہ ہمیں منطقی بحثوں میں الجھایا جارہا ہے تاکہ اصل مسائل کی جانب ہماری توجہ مبذول نہ ہونے پائے جس کے لئے ہمارے ذہنوں کو فرقہ پرست بنایا جارہا ہے۔ ماحول کچھ ایسا پیدا کیاجارہا ہے کہ ہم بے روزگاری، بدعنوانیوں اور ملک کی سلامتی جیسے اہم مسائل کی طرف توجہ دینے کی بجائے ، فرقہ پرستی کا شکار بن کرنفرت کا مظاہرہ کرنے لگیں۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت میں گذشتہ چارساڑھے چار برسوں میں ایسے ایسے سیاہ کارنامے انجام دئیے گئے ہیں کہ ان کا احاطہ کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ انگریزوں نے ملک پر حکمرانی کرنے کے لئے پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کا حربہ اختیار کیاتھا اور آج انہیں کی پالیسی کو آگے بڑھاتے ہوئے توجہ ہٹاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی کو اختیار کیا گیا ہے۔ ان دنوں یہ کوششیں کی جارہی ہیں کہ دستور کی روح کو ختم کردیا جائیجس کے ذریعہچند مخصوصگھرانوں کو فائدہ پہنچایا جائے ۔اسٹوڈنٹس لیڈر نے کہا کہ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان سازشوں کا شکار بننے کی بجائے ہم میں اتحاد پیدا کریں اور ملک کو نقصان پہنچانے والی طاقتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ نفرت کا جواب نفرت سے نہیں دیا جاسکتا ذہانت سے دینا ہوگا اور آپسی محبت کے ذریعہ ہمیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہم جذباتی نعروں کا شکار نہیں بنیں گے۔ لکچر کے بعد سامعین کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں نفرت کا جو ماحول پیدا کیا جارہاہے اس کے پس پردہ سازش کو سمجھنا ہوگا ۔ اب یہ وقت مناسب نہیں ہے کہ راہول یا اویسی جی سے سوال کیا جائے بلکہ یہ وقت مودی سے سوال کرنے کا ہے، ان سے ایک ایک پائی کا حساب پوچھنے کا ہے۔ ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خان نے صدارت کی اور کہا کہ حیدرآباد گنگا جمنی تہذیب کا ایک قدیم شہر ہے ۔ یہاں کے لوگ آپس میں مل جل کر ایسے رہتے آئے ہیں جیسے چار سو برسوں سے چارمینار کے چارمینار اپنے ہاتھ اٹھائے یہ دعا کررہے ہوں کہ اے پروردرگار ہندو، مسلم ، سکھ اور عیسائی کو یہاں پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کرے ۔جبکہ سابق رکن پارلیمنٹ مسٹر عزیز پاشاہ اورریاستی سکریٹری سی پی آئی مسٹر چاڈا وینکٹ ریڈی نے بھی مخاطب کیا۔