Monday, June 9, 2025
Homeدیگرمفاد عامہوقف بورڈ میں40 فیصد ملازمین کی آپس میں رشتہ داری

وقف بورڈ میں40 فیصد ملازمین کی آپس میں رشتہ داری

- Advertisement -
- Advertisement -

وقف بورڈ میں کام کا انداز بڑا ہی نرالا ہے ۔ کسی کام کی تکمیل کیلئے وقت کی تحدید ہے اور نہ ہی تعجیل کے لئے کوئی وجوہ بتانے کی ضرورت ہے ۔ معمولی سے کام کے لئے کئی برس بھی کافی نہیں ہوتے ہیں تو بعض امور چند گھنٹوں میں انجام پاتے ہیں۔ عہدیداروں و ملازمین میں نہ ہی جوابدہی کا تصور ہے اور نہ ہی تادیبی کارروائی کا خوف ۔ عہدیداروں و ملازمین کے تاخیر سے دفتر پہنچنے پر ان سے باز پرس ہوتی ہے اور نہ ہی دفتری اوقات کے ختم ہونے کے باوجود بھی دفتر میں موجود رہنے پر استفسار کیا جاتاہے ۔ وقف بورڈ کے ملازمین کی تاخیر سے دفتر پہنچنے اور دفتری اوقات میں دفتر کے باہر مٹر گشتی کرنے کی عادت کو ختم کرنے کے لئے اْس وقت کے اسپیشل آفیسر شفیق الزماں نے ہزاروں روپے خرچ کرکے بائیو میٹرک اٹنڈنس سسٹم (انگوٹھے کے نشان کے ذریعہ حاضری ) روشناس کروایا تھا مگر ان کے وقف بورڈ سے تبادلہ کے ساتھ ہی اس سسٹم کو ناکارہ بنادیا گیا اور پھر سے مینول اٹنڈنس سسٹم کا احیاء کرلیا گیا۔ چونکہ سی ای او خود دفتر کو تاخیر سے پہنچنے لگے ہیں اس لئے اکثر عہدیدار و ملازمین نے تاخیر سے دفتر پہنچنے کو اپنی عادت بناڈالی ہے۔ وقف بورڈ میں ابھی تک کیڈر اسٹرنتھ طئے نہیں کی گئی ہے جس کی وجہ سے ملازمین کی سبکدوشی کے ساتھ ساتھ ملازمین و عہدیداروں کی تعداد گھٹتی چلی جارہی ہے ۔ وقف بورڈ کو ایک فعال اور موثر ادارہ میں تبدیل کرنے کیلئے انقلابی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ ملازمین کو پابند وقت بنانے کے لئے پھر سے بائیو میٹرک اٹنڈنس سسٹم کو روشناس کروانا ہوگا اور ان کی نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھنے اور باقاعدہ بنانے کے لئے آئی آر آئی ایس مشین نصب کرنا ہوگا ۔ وقف بورڈ کی ایک خاص خوبی یہ ہے کہ یہاں کام کرنے والے تقربیاً ایک دوسرے کے قریبی رشتہ دار ہیں ۔ کئی برادرنسبتی ‘ چچا بھتیجے ‘ خالو بھانجے حتیٰ کہ سگے بھائی اور باپ بیٹے یہاں ملازمت کرتے ہیں ۔ ایک اندازہ کے مطابق 40 فیصد عملہ کی آپس میں رشتہ داری ہے ۔ یہ سب کچھ اس لئے ہوتا رہا کہ جس کا جب بس چلے وہ اپنے قرابت داروں کو وقف بورڈ میں ملازمتیں دلاتا چلا گیا ۔ ملازمتوں کی فراہمی میں ان کی قابلیتوں کا بھی لحاظ نہیں رکھا گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ سیناریٹی اور اقرباء پروری کے نتیجہ میں چند پوسٹ گریجویٹ ملازمین کو میٹرک؍انٹر میڈیٹ کامیاب عہدیداروں کی ماتحتی میں کام کرنا پڑرہاہے ۔ قانون حق آگہی کے نفاذ ہوئے چار برس بیت گئے مگر آج تک دفتر وقف بورڈ میں مذکورہ قانون کے قواعد کی مطابعت میں اس ضمن میں کوئی بورڈ نصب نہیں کیا گیا ہے ۔ عموماً ہر دفتر میں ایک پبلک انفارمیشن آفیسر کا تقرر کیا جاتاہے جس کے ذمہ قانون حق آگہی کے تحت طلب کی جانے والی معلومات کی درخواستوں کی یکسوئی ہے مگر وقف بورڈ میں ہر سیکشن کا ایک علیحدہ پبلک انفارمیشن آفیسر ہے ۔ قانون حق آگہی کے تحت موصول ہونے والی درخواستوں کی یکسوئی کے موقف کے بارے میں سی ای او کو بھی علم نہیں ہے کہ کتنی درخواستیں موصول ہورہی ہیں اور کتنی درخواستوں کا جواب دیا جارہاہے ۔ قانون حق آگہی کے تحت معلومات طلب کرنے والے درخواست گذاروں کو ایک ماہ بیت جانے کے باوجود بھی معلومات فراہم نہیں کی جاتیں ۔ کئی کیسس میں ادھوری معلومات فراہم کی جاتی ہیں اور مابقی مطلوبہ معلومات کی فراہمی کو موخر کردیا جاتاہے ۔ محکمہ مال اور انڈومنٹ کے بعد وقف بورڈ کو اہمیت حاصل ہوتی ہے چونکہ یہ ادارہ بھی کروڑہا روپے مالیتی جائیدادوں کا امین ہے مگر اس کے ریکارڈ روم میں اگر کوئی نظر ڈالے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جائے گا کروڑہا روپے مالیت کی جائیدادوں سے متعلق فائیلیں بوسیدہ کپڑوں کے بنڈل میں باندھ کر پھینک دی گئی ہیں ۔ کئی سیکشنس میں تو فائیلس کو ایک کونہ پر فرش بچھادیا گیاہے ۔ حکومت مکہ مسجد میں مصلیوں کی سلامتی او رامکانی دہشت گردانہ حملوں کو روکنے کیلئے لاکھوں روپے خرچ کرکے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئیہے ۔ وقف بورڈ میں کروڑہا روپے کی فائیلس ہیں اور ان کے گم ہوجانے پر بورڈ کو کئی جائیدادوں سے محروم ہونا پڑتاہے اس لئے وقف بورڈ کے تمام سیکشنس میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے چاہئے نہ کہ چند مخصوص مقامات پر۔ وقف بورڈ سے روزانہ سینکڑوں افراد رجوع ہوتے ہیں جنہیں یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ حکومت اور بورڈ کے حکام کی جانب سے کب کونسے احکام صادر کئے جاتے ہیں اس لئے عوام کو احکامات و فیصلوں سے بروقت آگاہ رکھنے کے لئے احکامات اور نوٹسس کو نمایاں مقام پر نصب نوٹس بورڈس پر چسپاں کیا جانا چاہئے ۔ ساتھ ہی اخبارات میں وقف بورڈ کے امور سے متعلق شائع شدہ خبروں کے تراشیدے بھی چسپاں کئے جانے چاہئے اور ساتھ ہی ان خبروں میں کئے جانے والے انکشافات کی روشنی میں بروقت اقدامات کرنے ایک نظام کو روشناس کیا جانا چاہئے اور کسی بھی خبر پر مابعد کئے جانے والے اقدامات سے صحافت کو آگاہ کیا جانا چاہئے تاکہ عوام کو وقف بورڈ کی فعالیت کا اندازہ ہو۔ اوقافی جائیدادوں کی صیانت کیلئے سب سے اہم اقدام یہ کرنا ہوگا کہ وقف بورڈ کے ریکارڈس اور ریونیو ریکارڈس میں یکسانیت پیدا کرنے کے لئے مبدائی ریکارڈس کو اساس بناکر دونوں ریکارڈس کی مناسب تصحیح کی جائے جس کیلئے ایک میکانزم وضع کرنا ہوگا ۔ وقف بورڈ چونکہ ایک مذہبی ادارہ ہے اس لئے اس میں کام کرنے والے عہدیداروں اور ملازمین کی قرآن اور اسلامی تعلیمات سے کماحقہ آگہی ضروری ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ بورڈ کے چند ملازمین شرابی اور جواری بھی ہیں ۔ ایسے ملازمین کو پابند کرتے ہوئے ان کی اصلاح کی جائے جس کے لئے وقتاً فوقتاً دفتر میں مذہبی اجتماعات کا اہتمام کیا جائے اور شہر کے جید مفتیان کرام پر مبنی ایک پیانل تشکیل دیا جائے جن سے شرعی رہنمائی حاصل کی جائے چونکہ وقف بھی شریعت اسلامی کا ایک شعبہ ہے۔