Thursday, April 24, 2025
Homeٹرینڈنگبابری مسجد مقدمہ، ثالثی کمیٹی کو 15 اگسٹ تک حتمی رپورٹ پیش...

بابری مسجد مقدمہ، ثالثی کمیٹی کو 15 اگسٹ تک حتمی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت

- Advertisement -
- Advertisement -

نئی دہلی۔  بابری مسجد ملکیت مقدمہ میں سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بینچ نے ثالثی کمیٹی کی مدت میں توسع کرتے ہوئے اسے 15اگست تک اپنی حتمی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔ ہندو فریقین اس کے خلاف تھے اور چاہتے تھے کہ ثالثی  کمیٹی کی مدت کوکم کرکے جون تک کردیا جائے لیکن  عدالت نے ان کی دلیل کو قابل اعتنا نہیں سمجھا۔

دوسری طرف جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ڈاکٹر راجیودھون کے بموجب  اگر ثالثی کمیٹی مزید وقت چاہتی ہے تو اسے مزید مہلت دی جانی چاہئے۔ عدالت نے راجیو دھون کی دلیل کو تسلیم کیا اور کمیٹی کی معیاد میں 15 اگست تک کا اضافہ کردیا۔ واضح  رہے کہ چیف جسٹس رنجن گگوئی کی سربراہی میں  پانچ رکنی آئینی بینچ کے سامنے جب یہ معاملہ پیش ہوا تو جمعیۃ علماء ہند کے محمد صدیق جنرل سیکریٹری جمعیۃ علماء، اتر پردیش کی طرف سے سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیودھون سینئرایڈوکیٹ راجورام چندرن، ایڈوکیٹ برندا گروور اور ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجازمقبول وغیرہ پیروی کے لئے پیش ہوئے۔

جمعیۃ کے وکلاء نے عدالت کومطلع کیا کہ ثالثی پینل کے سامنے ہمارے فریق اپنے بیانات درج کرواچکے ہیں اوراگر پینل کے روبرو پیش ہونے کی مزید ضرورت پیش آتی ہے تووہ اس کے لئے بھی تیارہیں۔ سماعت کا جب آغاز ہوا تو ثالثی کمیٹی کے چیئر مین سابق جسٹس فقیر محمد خلیف اللہ نے آئینی بینچ کے سامنے ایک سیل بند لفافہ میں کمیٹی کی عبوری رپورٹ پیش کی جس میں عدالت سے یہ درخواست بھی کی گئی تھی کہ فریقین کے درمیان مصالحت اور مسئلہ کو سلجھانے کے لئے کمیٹی کی مدت میں 15 اگست تک کا اضافہ کردیا جائے۔ ہندوفریق اس حق میں بالکل نہیں تھے جبکہ جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ڈاکٹر راجیودھون نے عدالت سے کہا کہ اگر کمیٹی مصالحتی عمل کے لئے مزیدوقت چاہتی ہے تو اسے دیا جانا چاہئے۔

ابتدامیں چیف جسٹس نے بھی مزیدوقت دینے سے انکارکردیا تھا لیکن بعد میں دیگر ججوں سے تبادلہ خیال کے بعد انہوں نے کہا کہ ہم مزیدوقت دینے کے لئے تیارہیں۔ اس موقع پر نرموہی اکھاڑے نے درخواست کی کہ مصالحت کا عمل فیض آبادکے بجائے لکھنو یا دہلی میں انجام دیا جانا چاہئے اس نے یہ بھی کہا کہ کمیٹی فریقین سے علیحدہ علیحدہ گفتگوکررہی ہے, تمام فریقین کو ایک ساتھ بیٹھاکر بات چیت نہیں کی جارہی ہے۔ عدالت نے ان دونوں باتوں کاکوئی نوٹس نہیں لیا۔

کارروائی کے دوران رام للاکے وکیل سی ایس ویدھ ناتھن نے شکوہ کیا کہ 26فبروری کےحکم کے تحت آٹھ ہفتے کے اندرفریقین کو گواہوں کے بیانات کے ترجمہ پر اپنا اعتراض داخل کرناتھا لیکن اب تک کسی نے اعتراض داخل نہیں کیا اس پر جمعیۃعلماء ہند کے وکیل آن ریکارڈ اعجازمقبول نے جواب دیا کہ 13990صفحات پر مشتمل تراجم پر ہم لوگ کام کررہے ہیں ان میں دستاویزات اور گواہوں کے بیانات کے تراجم شامل ہیں۔ انہوں نے دلیل دی کہ ان تراجم کا مطالعہ کیا جانا بہت ضروری ہے کیونکہ ان میں بہت غلطیاں ہیں۔

اس حوالہ سے انہوں نے حاجی محبوب احمد کی گواہی بطورمثال پیش کی اور کہا کہ انہوں نے اپنی گواہی میں کہا تھا کہ میں بابری مسجد میں جمعہ کی نمازکے علاوہ بھی پانچوں وقت کی نمازیں پڑھتا رہا ہوں لیکن  اترپردیش حکومت کی طرف سے اس کا جو ترجمہ داخل  کیاگیا ہے اس میں لکھا گیا ہے کہ جمعہ کی نمازکے علاوہ یعنی جمعہ کی نماز چھوڑ کر پانچوں وقت کی نماز پڑھتا رہا ہوں انہوں نے کہا کہ یہ تو ایک مثال ہے ترجمہ میں اوربھی بہت سی خامیاں ہیں۔ اس پر عدالت نے کہا کہ ترجمہ کے جن حصوں پر فریقین کو اعتراض ہے اس پر اپنا اعتراض عدالت کے سامنے پیش کریں توعدالت اس پر غورکرے گی۔