حیدرآباد ۔ اب جبکہ ہندوستان میں نئے وزیراعظم کا فیصلہ چند دنوں میں ہوجائے گا لیکن اس کے باوجود انتخابی مہم اور سیاسی ریلیوں میں کئی ایک قائدین کی جانب سے متنازعہ بیانات کا سلسلہ ہنوز جاری ہے جس کی تازہ ترین مثال فلموں کے مقبول ترین اداکار اورمکل نیدھی مایم (ایم این ایم) کے صدر کمل حسن نے متنازعہ شخصیت نتھو رام گوڈسے کو آزاد ہندوستان کا پہلا ہندو دہشت گرد قرار دیا ہے ۔تملناڈو میں ایک انتخابی مہم کو خطاب کرتے ہوئے کمال حسن نے کہا کہ وہ خود کو ہندوستانی کہتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں کیونکہ ہندوستان مساوات کی سرزمین ہے جس کی بہترین مثال ملک کا ترنگا ہے ۔جس میں موجود رنگ مختلف مذاہب اور قوموں کی نمائندگی کرتے ہیں۔
کمل حسن نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ وہ یہ بات اس لیے نہیں کہہ رہے ہیں کیونکہ یہاں مسلم آبادی اکثریت میں ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ آزاد ہندوستان کا پہلا دہشتگرد ہندو تھا اور یہ وہی ہندو دہشت گرد ہے جسے آج نتھو رام گوڈسے کے نام سے جاناجاتاہے جس نے بابائے قوم مہاتما گاندھی کا قتل کیا ہے ۔ کمل حسن کے اس بیان کے بعد ہندوستان میں اختلافات کا ایک سیلاب امنڈ پڑا ہے کیونکہ حالیہ دنوں میں ہندوستان پہلے ہی دونظریات میں منقسم ہو چکا ہے ،جس کی اہم وجہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے ساتھ دیگر زعفرانی جماعتوں اور ان کے نظریات کے حامی افراد کے لیے نتھو رام گوڈسے کسی ہیرو سے کم نہیں جبکہ یہ لوگ بابائے قوم مہاتما گاندھی کو ملک کی تقسیم اور تقسیم کے وقت ہزاروں افراد کی موت کا ذمہ دار مانتے ہیں ۔
نتھو رام گوڈسے نے گاندھی کا قتل کیا اسے یہ طبقہ درست فیصلہ مانتا ہے جبکہ 1948 سے ہی ہندوستان میں اکثریت اس نظریے کے حامی ہیں کہ گاندھی جی عدم تشدد کے حامی تھے اور وہ ہندوستانی قوم کے لئے بابائے قوم کا درجہ رکھتے تھے جن کا قتل یقینا ہندوستان کے لیے ایک بہت بڑا سانحہ ہے ۔ کمل ہاسن نے جیسے ہی نتھورام گوڈ سے کو آزاد ہندوستان کا پہلا ہندودہشت گرد قرار دیا تونتھورام گوڈسے کے حمایتی افراد کی جانب سے ان پر تنقیدوں کے حملے شروع ہوچکے ہیں ۔
نئی دہلی میں بی جے پی کے ترجمان اشوینی کمار اپادھیائے نے چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) کو ایک مکتوب لکھتے ہوئے کمل حسن کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے ضمن میں سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ۔ اشونی کمار نے مطالبہ کیا ہے کہ کمل حسن پر کم از کم پانچ دن کی پابندی عاید کرنے کے علاوہ ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرتے ہوئے مقدمہ بھی چلانے کا مطالبہ کیا اور ان کی پارٹی ایم این ایم پر پابندی عائد کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
کمال حسن پر ایک اور شدید تنقید ٹاملناڈو کے وزیر کے ٹی راجندرا بالاجی نے کی جنہوں نے انتہائی سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ کمال حسن کی زبان کاٹ دینی چاہیے ۔ راجندرا بالاجی نے کہا کہ کمال حسن کی جانب سے نتھورام گوڈ سے کو ہندوستان کی آزادی کے بعد پہلے ہندو دہشت گرد ہونے کا بیان دینے پر ان کی زبان کاٹ دینی چاہیے اور الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ ان کی سیاسی جماعت پر ہمیشہ کے لیے پابندی عائد کر دے ۔
نتھورام گوڈسے کی حمایت میں شیوسینا نے بھی کمل حسن کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ شیوسیناکے ترجمان سنجے راوت نے اپنی جماعت کی نمائندگی اور کمال حسن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ بالی ووڈ اداکار کی ایک ناکام کہانی ہے ۔ سنجے راؤت نے کہا کہ کمال حسن ایک بہترین اداکار ہیں لیکن نتھو رام گوڈسے کہ متعلق ان کا بیان ایک ناکام کہانی ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہندو اس بات کو بالکل بھی برداشت نہیں کریں گے کہ ان کے مذہب کو دہشت گردی سے جوڑا جائے کیونکہ کمل حسن اور ڈگ وجے سنگھ کے درمیان کوئی فرق نہیں کیونکہ یہ لوگ غیر ضروری بیانات سستی شہرت کے لئے دیتے ہیں۔
بابائے قوم مہاتما گاندھی کی موت کے ساتھ نتھورام گوڈسے کا نام تاریخ میں ہمیشہ لیا جائے گا لیکن حالیہ دنوں میں اور خاص کر کے جب سے بی جے پی نے اقتدار سنبھالا ہے ،نتھورام گوڈ سے کو ایک ہیرو کے طور پر پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی ہے حالانکہ ایک دہے قبل تک بھی نتھو رام گوڈسے کی ہندوستانی تاریخ میں شناخت صرف گاندھی کے قاتل کے طور پرتھی لیکن حالیہ برسوں میں گاندھی جی کی وفات کے دن جہاں ہندوستان بھر میں ان کی عدم تشدد اور ہندوستان کی آزادی میں ان کی خدمات کو یاد کیا جاتا ہے تو دوسری جانب نتھورام گوڈ سے کو ہیرو کے طور پر پیش کیا جانے لگا ہے ، جبکہ رواں برس جب گاندھی جی کی یوم وفات کی تقاریب منائی جارہی تھی تو دوسری جانب بی جے پی اور آر ایس ایس کے حامیوں نے نتھو رام گوڈسے کی پوجا کرنے کے علاوہ گاندھی جی کے پتلے کو گولی بھی ماری تھی۔
ہندوستانی سماج اس وقت گاندھی اور گوڈسے کے درمیان منقسم ہو چکا ہے جہاں ایک جانب ایک طبقہ گوڈ سے کو قاتل اور دہشت گرد مانتا ہے تو دوسری جانب بی جے پی اور آر ایس ایس اسے ہندوستان کے لئے مسیحا اور گاندھی جی کو تقسیم ہند کا ذمہ دارقرار دیتے ہیں ان کی اس غلطی پر سزا کا مستحق مانتا ہے۔ نظریات کا یہ اختلاف آنے والے زمانے میں مزید شدت اختیار کر سکتا ہے جس کے آثار آج ہی دکھائی دے رہے ہیں ۔