Monday, June 9, 2025
Homeٹرینڈنگبی جے پی 40 اورکانگریس 39

بی جے پی 40 اورکانگریس 39

مجرمانہ سرگرمیوں  میں دوبڑی جماعتوں کے زیادہ امیدوار ملوث

- Advertisement -
- Advertisement -

نئی دہلی ۔ ہندوستان میں  لوک سبھا کےلئے عام انتخابات اختتام پذیر ہوئے اور اگزٹ پول نے بی جے پی کو یہ برتری حاصل  ہونے کی پیش قیاسی کردی ہے لیکن یہ پیش قیاسیاں کتنی سچ ہوں گی اس کا فیصلہ تو 23 مئی کو ہوگا لیکن اس سے قطع نظر اگر بی جے پی امیدواروں کو دیکھا جائے تو ان میں بیشتر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔بی جے پی نے بیشتر ایسے امیدوار انتخابی میدان میں اُتارے ہیں جن پر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔

دوسری جانب بی جے پی کی مخالف سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس بھی اس کام میں محض ایک ہی قدم پیچھے ہے۔ انتخابات اور امیدواروں کا جائزہ لینے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’ایسوسی ایشن برائے جمہوری اصلاحات‘ (اے ڈی آر) کے مطابق وزیراعظم نریندر مودی کی جماعت بی جے پی کے 40 فیصد امیدواروں کو مختلف جرائم کے الزامات کا سامنا ہے جن میں خواتین کے خلاف جرائم اور قتل کے الزامات بھی شامل ہیں۔اس ضمن میں کانگریس کا ریکارڈ بھی کچھ خاص مختلف نہیں ہے اور اس کے 39 فیصد امیدواروں پر بھی مختلف نوعیت کے جرائم کے الزامات ہیں۔

تنظیم کے مطابق حالیہ انتخابات میں حصہ لینے والے ہر پانچویں امیدوار کو مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات کا سامنا ہے۔ملک کی چھوٹی پارٹیوں میں سے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے سب سے زیادہ 58 فیصد امیدواروں کو مختلف مقدمات کا سامنا ہے۔واضح رہے کہ انتخابی قوانین ملزمان کو الیکشن لڑنے کی اجازت  دیتے ہیں تاہم جب ان کا جرم ثابت ہو جائے اور وہ سزا یافتہ ہو جائیں تو الیکشن نہیں لڑ سکتے۔

ہندوستان میں چونکہ عدالتی عمل اور نظام انصاف انتہائی طویل وقت کے بعد اپنا فیصلہ سناتا ہے اس لیے ملزمان کے ٹرائل میں کئی کئی سال لگ جاتے ہیں اور بعض اوقات تو دس سال بعد جا کرمقدمہ کا فیصلہ ہوتا ہے۔اے ڈی آر کے سربراہ انیل ورما کے بموجب سیاسی جماعتیں صرف اپنی کامیابی کے بارے میں سوچتی ہیں اور یہ جانتی ہیں کہ پیسے، طاقت اور اثرو رسوخ کے بل بوتے پر ہی کامیابی یقینی بنائی جا سکتی ہے۔‘

تفصیلات کے مطابق کے سریندرن نامی بی جے پی کے ایک امیدوار کے خلاف فسادات کو ہوا دینے اور قتل سمیت 240 مقدمات درج ہیں۔زیادہ تر مقدمات اس وقت بنے جب وہ بی جے پی کی اس مہم کا حصہ تھے جو سنِ بلوغت تک پہنچ جانے والی لڑکیوں اور خواتین کا کیرالہ کے مندر میں داخلہ روکنے کے لیے شروع کی گئی تھی۔

سریندرن کا اگر موقف جاننے کی کوشش کریں تو ان کا بیا ن کافی ہے جس میں کہتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی مجھے مجرم سمجھ سکتا ہے لیکن حقیقت میں، میں پوری طرح بے قصور ہوں، یہ سب سیاسی حربہ تھا۔اسی طرح کانگریس کے امیدوار ڈین کوریا کوس 204 مقدمات میں ملوث ہونے کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔ ان پر عائد زیادہ تر الزامات کیرالہ میں کمیونسٹ پارٹی کے خلاف اس سیاسی تحریک سے متعلقہ ہیں جس کی وجہ سے انتشار پھیلا تھا۔ پارٹی ترجمان کے بموجب کوریا کورس بے قصور ہیں، پولیس نے ان پر کیرالہ حکومت کے دباؤ کی وجہ سے بے بنیاد الزامات کے تحت مقدمات درج کیے۔سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ اکثر اوقات عوام ایسے امیدواروں کو ووٹ دیتے ہیں جن پر جرائم کے مختلف الزمات ہوتے ہیں، کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایسے افراد زیادہ بہتر طریقے سے ان کے کام  آسکتے ہیں۔

یونیورسٹی آف حیدر آباد میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر کے سی سوری نے اس خصوص میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ طاقتور افراد، نظام کو ٹھیک کرنے کے لیے ایک متوازن نظام متعارف کرواتے ہیں۔اے آر ڈی نے گذشتہ سال ڈھائی لاکھ رائے دہندگان  سے ایک سروے کیا جس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ 98 فیصد ووٹرز یہ سمجھتے ہیں کہ جرائم میں ملوث امیدواروں کو پارلیمنٹ میں نہیں ہونا چاہیے تاہم 35 فیصد کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ ایسے امیدوار کو ذات پات کی بنیاد پر یا اگر کسی امیدوار نے ماضی میں اچھا کام کیا ہو تو اسے ووٹ دیں گے۔