Monday, June 9, 2025
Homeہندکرناٹک کے ناٹک سے سبق کیا ملا

کرناٹک کے ناٹک سے سبق کیا ملا

- Advertisement -
- Advertisement -

بنگلور-کئی دنوں تک چلنے والے کرناٹک کے سیاسی ناٹک کا اختتام ہوگیا اور جیسا کہ امید کی جارہی تھی کہ سیکولر اتحاد سے بننے والی حکومت اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہی گئی نتائج قیاس آرائیوں کے مطابق ہی آئے اور بی جے پی کےلئے جنوبی ہندوستان میں ایک اور ریاست کی راہیں ہموار ہوگئی۔ کرناٹک میں کانگریس اور جنتا دل سیکولر اتحاد کی حکومت ایوان میں اکثریت ثابت کرنے میں ناکام رہی اور اس سے مختلف نتائج کی کوئی امید بھی نہیں کر رہا تھا کیونکہ یدی یورپا کی قیادت میں بی جے پی کسی بھی حال میں اپنی حکومت بنانا چاہتی تھی۔

 بی جے پی نے اپنی حکومت کے قیام کے لئے تمام ہتھکنڈے استعمال کیے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ اسمبلی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد بھی بی جے پی نے اپنی حکومت بنائی تھی لیکن تمام کوششوں کے با وجود وہ اعتماد کا وو ٹ حاصل نہیںکر پائی تھی کیونکہ کانگریس۔ جنتا دل سیکولر اتحاد تازہ اور مضبوط تھا لیکن اس کے با وجود بی جے پی نے ریاست میں حکومت تشکیل کرنے کی اپنی کوششیں نہیں چھوڑی تھی۔

لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے بعد بی جے پی نے نئے حوصلہ کے ساتھ حکومت گرانے کی کوششیں دوبارہ شروع کی تھی اپنے مقاصد کے حصول کے قریب بھی ہے اور اب اس کے لئے آسانی بھی ہوگئی تھی کیونکہ اتحاد کے کئی ناراض ارکان اسمبلی کو بی جے پی میں اپنا محفوظ مستقبل کی ضمانت نظر آئی۔ اتحاد کے کئی ارکان باغی ہوگئے، بی جے پی نے کماراسوامی حکومت کے خلاف محاذ سنبھال لیا۔

 کماراسوامی اورکانگریس کے کئی رہنماوں نے حکومت بچانے کی بہت کوشش کی لیکن ان کو کامیابی نہیں ملی۔ حکومت کس کی گری اور اب کس کی بنے گی یہ بات کوئی اہمیت نہیں رکھتی لیکن یہ بات بہت اہم ہے کہ حکومت کیسے گری اور کیسے بنے گی۔ ظاہر ہے گرانے میں جو طریقہ اپنایاگیا اس میں لالچ اور بدعنوانی کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ جن ارکان نے بغاوت کی ان کے بغاوت کرنے کی وجہ بالکل شیشے کی طرح صاف ہے۔ ان کوکرسی اورمالی فائدوںکا لالچ دیاگیا تھا۔

 اس کا مطلب صاف ہے کہ جو پیسہ اوراقتدار سے طاقتور ہوگا اس کے لئے غلط طریقوں سے حکومت گرانا اور بنانا کوئی مشکل نہیں ہوگا۔ ایک زمانہ آیا رام گیا رام کا تھا جب بغیر کسی خوف کے ارکان اپنی سیاسی وفادریاں تبدیل کرلیا کرتے تھے لیکن پھر اینٹی ڈفیکشن قانون بنا اور اس پر کسی حد تک روک لگ گئی لیکن پچھلے کچھ سال کے سیاسی حالات نے یہ سوچنے پر مجبورکر دیا ہے کہ اس قانون کو مزید سخت بنانے کی ضرورت ہے۔

اب ضرورت ہے کہ جو ارکان بغاوت کرتے ہیں یا سیاسی وفاداریاں تبدیل کرتے ہیں ان کی تعداد بھلے کتنی بھی ہو ان ارکان کی رکنیت فوری ختم ہو جانی چاہیے اوران کو دوبارہ عوام کے پاس جانا چاہیے کیونکہ عوام جس وقت اپنے لئے نمائندے کا انتخاب کرتے ہیں تو اس کے ذہن میں امیدوار کی پارٹی بھی ہوتی ہے اور وہ پارٹی کے تناظرمیں کسی لیڈر کا انتخاب کرتے ہیں اور جب وہ لیڈرپارٹی ہی بدل دیتے ہے تو پھر عوام کے اس بھروسہ کا کیا ہوگا جو رائے دہی کے وقت اپنے نمائندے کی شخصیت اور پارٹی سے اس کی وابستگی کے ضمن میں دکھاتے ہیں۔

یاد رہے کہ کرناٹک اسمبلی میں فلور ٹسٹ کے دوران چیف منسٹر کماراسوامی ناکام ہو ئے ہیں۔ جس کے بعد کماراسوامی کی قیادت والی کانگریس۔ جے ڈی ایس کی مخلوط حکومت گر گئی ہے۔ اسی کے ساتھ بی جے پی نے کہا ہے کہ اس کی طرف سے کرناٹک میں حکومت سازی کا دعوی پیش کیا جائے گا۔ کرناٹک کی جے ڈی ایس ۔کانگریس مخلوط حکومت کے حق میں 99 ووٹ ڈالے گئے جبکہ اس کی مخالفت میں 105 ووٹ آئے ۔

تحریک اعتماد کرناٹک کے چیف منسٹر ایچ ڈی کمارسوامی کی طرف سے پیش کی گئی تھی۔ اسمبلی اسپیکر نے کانگریس کے 12 باغی ارکان اسمبلی کو منگل کے دن 11 بجے حاضر ہونے کے لئے سمن دیا تھا لیکن انہوں نے نجی وجوہات کا حوالہ دے کر بنگلورو آنے سے معذرت کی اور ملاقات کے لئے چارہفتوں کا وقت طلب کیا۔ دو آزاد امیدواروں آرشنکر اور ایچ گنیش نے 8 جولائی کو وزیر کے عہدے سے استعفی دیتے ہوئے مخلوط حکومت سے حمایت واپس لے لی اور بی جے پی کے خیمہ میں شامل ہو گئے تھے۔

اس کے بعد بی جے پی اتحاد کے پاس 107 ارکار ن ہو گئے ہیں جن میں سے اس کے اپنے 105 ارکان اسمبلی ہیں۔کماراسوامی کی حکومت گر جانے کے بعد بی جے پی کے خیمہ میں خوشی کی لہر نظر آئی۔ اسمبلی کے باہر بی جے پی کارکنان نے جشن منایا۔ ادھر ایوان میں سابق چیف منسٹر اور بی جے پی کے لیڈر بی ایس یدی یورپا وکٹری سائن (جیت کا نشان) دکھاتے نظر آئے۔ ان کے ساتھ بی جے پی کے تمام ارکان اسمبلی موجود تھے۔