ینگون۔ میانمار کے فوجی حکام کے بموجب ان کی فوج کے کچھ جوانوں کو بحران کا شکار رخائن ریاست میں اجتماعی قبر بنانے کے الزامات پر تحقیقات کے بعدکورٹ مارشل کیا گیا۔واضح رہے فروری 2018 میں رخائن کے گاؤں گو در پائن میں کم از کم5 اجتماعی قبروں کا انکشاف کیا گیا تھا تاہم یہ دعویٰ وہاں کی حکومت نے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ لاشیں دہشت گردوں کی تھیں۔ رپورٹ کے مطابق فوج کی ویب سائٹ نے کہا ہے کہ گو درپائن میں تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ ہدایات پر عمل کرنے میں غلطی ہوئی ہے اور فوجی انصاف کے طریق کار کے تحت کورٹ مارشل کیا جائے گا۔
فوجی ترجمان زو من تن نے تحقیقات کی تصدیق کی اورکہا کہ اجتماعی قبروںکی رپورٹ صرف الزامات تھے تاہم تفصیلی معلومات فی الوقت جاری نہیں کی جاسکتیں۔ رپورٹ میں فوجیوں اور بودھ مت کے لوگ جنہوں نے مبینہ طور پرگاؤں پر اسلحہ، تلوار، راکٹ لانچر اور دستی بم سے حملہ کرکے ان کی لاشوں کو ایک گڑھے میں ڈال کر ان پر ایسڈ ڈال دیا تھا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ سے بچ کر بنگلہ دیش پناہ لینے والے متاثرین کے مطابق وہاں100 سے زائد افراد کا قتل کیا گیا۔سیکورٹی فورسز نے دعویٰ کیا کہ ان پر 500 گاؤں والوں کی جانب سے حملہ کیا گیا تھا اور انہوں نے جوابی کارروائی کی تھی۔
خیال رہے اقوام متحدہ کے تحقیق کار چاہتے ہیں کہ میانمار کے جنرلوں کو ریاست رخائن میں نسل کشی کی سرپرستی پر کارروائی کی جانی چاہیے ۔فوج نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ2017 کا آپریشن دہشت گردوں کا پولیس پوسٹ پر حملہ کے رد عمل میں جوابی کارروائی تھی۔انسانی حقوق کی تنظیموں نے کہا ہے کہ فوج نے مظالم پرکارروائی کے لیے کچھ نہیں کیا ہے ۔4 عہدیداروں اور3 سپاہیوںکو10 سال قید با مشقت کی سزا سنائی گئی تھی تاہم جیل حکام نے مئی کے مہینے میں کہا تھا کہ وہ اب زیر حراست نہیں ہیں۔