Sunday, June 8, 2025
Homeٹرینڈنگامیت شاہ کی پارلیمنٹ سے ہندوستانیوں کو گمراہ کرنے کی ایک اور...

امیت شاہ کی پارلیمنٹ سے ہندوستانیوں کو گمراہ کرنے کی ایک اور کوشش

- Advertisement -
- Advertisement -

نئی دہلی  ۔ ساری دنیا جہاں کورونا وائرس سے پریشان ہے تو ہندوستان کو کورونا وائرس کےعلاوہ جن دیگر وائرس کی وجہ سے خوف کے عالم  میں زندگی گذارنی پڑرہی ہے وہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے ) اور این پی آر کا وائرس ہے ۔ان وائرس کی وجہ سے ہندوستانی عوام کی ایک بڑی اکثریت کو خوف ہے کہ ان کا شہریت چھین لی جائے گی اور انہیں حراستی مراکز میں بے یارومددگار چھوڑدیا جائے گا، حالانکہ جمعرات کو وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں یہ بیان دیا ہے کہ این پی آر کےلئے کوئی دستاویزات طلب نہیں کئے جائیں گے اور نہ ہی کسی شہری کے فارم میں مشکوک نہیں لکھا جائے گا۔

شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے بعد قومی آبادی رجسٹر (این پی آر) کا بھی ملک کی کئی ریاستوں میں پرزور مخالفت ہو رہی ہے۔ این پی آرکے متعلق کہا جا رہا ہے کہ اس میں عوام سے شہریت سے متعلق کاغذات مانگے جائیں گے اور نہ دینے پر انھیں ڈی یعنی مشتبہ شہری قرار دیا جائے گا۔ اسی مسئلے  پر جمعرات کو زیر داخلہ امیت شاہ نے راجیہ سبھا میں تقریر کی اور کہا کہ این پی آر سے کسی کو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس میں کسی کو ڈی قرار نہیں دیا جائے گا۔لیکن ترمیم شدہ شہریت قانون اور این آر سی کی کرونولوجی سمجھا کر پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ پورے ملک کو ورغلانے والے وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایک مرتبہ پھر پارلیمنٹ سے ملک کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ دراصل این پی آر جس 2003 کے شہریت قانون کی ترمیم کی بنیاد پر ہو رہا ہے، اسی میں لوگوں کو مشتبہ بتانے کی سہولت ہے۔

دراصل وزارت داخلہ کے ذریعہ دسمبر 2003 کو جاری شہریت قانون کے اعلامیہ میں ہی مشتبہ (ڈاؤٹ فل) لوگوں کے بارے میں صاف صاف سہولت کا ذکر ہے۔ شہریت ایکٹ میں جوڑے گئے شہریت قانون 2003 کے سیکشن 4 میں صاف کہا گیا ہے کہ اسنادکے  عمل کے دوران، ایسے اشخاص کی تفصیل، جن کی شہریت مشتبہ یا مشکوک ہے، کو مقامی رجسٹرار کے ذریعہ آگے کی جانچ کے لیے آبادی رجسٹر میں مناسب تبصرہ کے ساتھ درج کیا جائے گا۔ اس قانون سے ہی واضح ہے کہ این پی آر میں مقامی رجسٹرار کسی کی شہریت مشتبہ پائے جانے پر آگے کی جانچ کے لیے اس کی انٹری مناسب تبصرہ کے ساتھ درج کرے گا۔ اس سے بالکل صاف ہے کہ امیت شاہ نے ترمیم شدہ شہریت قانون اور این آر سی کی ہی طرح ایک بار پھر پارلیمنٹ سے ملک کو گمراہ کیا ہے۔

 این پی آر کے قوانین سے جو بات سامنے آ رہی ہے، اس سے امیت شاہ کے بیان پر سوال کھڑے ہوتے ہیں۔ہندوستان بھر میں این پی آرکی مخالفت ہورہی ہے اس کی یہ ہی وجہ ہے این پی آر کے ذریعہ ہی بی جے پی اپنے مقاصد کے حصول کی تیاری میں مصروف ہے جس پر کئی دانشوروں اور ماہرین روشنی ڈالی ہے ۔آج آل انڈیاملی کونسل کے قومی نائب صدرمولاناانیس الرحمن قاسمی نے ایک احتجاجی ریلی سے خطاب کے دوران کہا ہے کہ آرایس ایس ذہنیت کی حامل موجودہ حکومت ہندوستان کے سیکولرزم اورجمہوری ڈھانچے کوختم کرنے کی منصوبہ بندی کرچکی ہے۔ جن لوگوں کے آباء واجداداوراکابرین نے اپنی جانوں کی بازی لگاگراس ملک کوظالم انگریزوں کے چنگل سے آزادکروایاانہیں کوآج آرایس ایس کی پوجاکرنے والے ملک کے غدارقرار دیتے ہیں۔ اصل غدارتویہی لوگ ہیں جن کے آباءواجدادنے مہاتماگاندھی کاقتل کیا۔

بی جے پی حکومت نے گزشتہ چھ سال میں ہندوستانی آئین میں ترمیم کرکے درجنوں خلاف دستورقانون بنائے ہیں لیکن ان میں سب سے خطرناک موجودہ متنازعہ شہریت ترمیمی قانون ہےاوراس کے بعداس سے بھی زیادہ خطرناک اسی سال کے ماہ اپریل سے پورے ملک میں نافذ ہونے والاقانون این پی آرہے جودراصل این آرسی کاچوردروازہ ہے۔ ان دونوں قوانین سے سب سے زیادہ نقصان ہندوستان کے غریب اورپسماندہ طبقے کاہوگا۔

غیرمسلم دلت اوردوسرے طبقات کی تومشکلیں کچھ برسوں تک رہنے کے بعدانہیں ہندوستان کی شہریت دوبارہ مل جائے گی؛لیکن مسلم پسماندہ طبقہ کے زیادہ ترلوگ بے وطن قرار دئے جائیں گے ۔اس لیے ہندوستانیوں کواس کالے قانون کے خلاف طویل  تحریک چلانی ہوگی اوران قوانین کے نقصان سے دلت اورپچھڑے طبقے کے افراد  کوبھی آگاہ کرناہوگا؛تاکہ ان کے ساتھ مل کراس تحریک کوچلانا سیکولر ہندوستانیوں لیے آسان ہو۔ ہندوستان میں آزادی کے بعدکسی نہ کسی مطالبے کولے کرہزاروں تحریکیں چلائی گئیں لیکن کسی تحریک میں اتنی بڑی تعدادمیں خواتین کوگھرسے باہرنکل آوازبلند کرتے نہیں دیکھااورخوشی کی بات ہے کہ اس لڑائی میں بڑی تعدادمیں برادران وطن بھی شامل ہیں۔

اس وقت ملک کی باگ ڈورایسے ہاتھوں میں ہے جنہیں ملک کی ترقی اورملک کے عوام کی خوشی اورآرام وراحت پسند نہیں اس لیے آئے دن ایسے غیرضروری قوانین لائے جارہے ہیں،جن سے ملک کاہرشہری پریشان ہے۔ملک میں اب نہ روزگارکی بات چل رہی ہے،نہ عدل وانصاف کاکہیں چرچاہے۔ملک میں اب توفقط بی جے پی اورآرایس ایس کے کارکنان اورلیڈران کی زہریلی بولیوں کی بوچھارہورہی ہے۔

متنازعہ فیصلوں کے خلاف کئی ایک اہم لیڈروں نے بھی بیانات دئیے ہیں جن میں مہاراشٹر ا، بہار اور تلنگانہ کے علاوہ مغربی بنگال کے چیف منسٹرز قابل ذکر ہیں ۔مہاراشٹرا کے چیف منسٹر ادھو ٹھاکرے نےریاست میں مہاوکاس اگھاڑی سرکار کے 100دن پورے ہونے پر ایوان اسمبلی میں میڈیا  نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مہاوکاس اگھاڑی حکومت  کے سینئر لیڈران کی رابطہ کمیٹی ریاست میں این پی آر سے جڑے مختلف پہلوؤں پر غور کرے گی اور اتحاد میں شامل تینوں ہی پارٹیوں کے لیڈران کے رابطہ کمیٹی کی جو رپورٹ آئے گی اس کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔ لیکن میں اتنا ضرور کہوں گا کہ کسی کو بھی مہاراشٹر کے شہریوں کے ان کی شہریت کو چھیننے کا اختیار نہیں دوں گا۔