نئی دہلی ۔ راجستھان کے کوٹہ بوندی انتخابی حلقہ سے بی جے پی رکن پارلیمنٹ اوم برلاکو لوک سبھا کا اسپیکر بنایاگیا ہے اور وہ اس وقت سیاسی اور عوامی حلقوں میں موضوع بحث بنے ہوئے ہیں اور یہ سب جانتے ہیں کہ برلا کا تعلق آرایس ایس سے ہیں لیکن جیسے ہی ان کو اسپیکر بنایا گیا لوک سبھا کی ویب سائٹ سے ان کے متعلق آرایس ایس اور مندر جیسے موضوعات کو ہٹا دیا گیا ہے۔اوم برلا کا نام جب لوک سبھا صدر عہدہ کے لیے سامنے آیا تو سبھی حیران رہ گئے تھے۔ حیرت زدہ رہنے والوں میں بی جے پی اور این ڈی اے میں شامل دوسری پارٹیوں کے اراکین پارلیمنٹ بھی شامل تھے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ حیران کرنے والی کوشش اب سامنے آئی ہے۔ لوک سبھا کی ویب سائٹ کی نگہداشت کرنے والے لوک سبھا سکریٹریٹ نے نئے اسپیکر اوم برلا کے تعارف میں سے وہ باتیں ہٹا دی ہیں جن میں ان کے آر ایس ایس سے تعلق ہونے اور ایودھیا تحریک میں حصہ لینے کی باتیں کہی گئی تھیں۔
دراصل اس سے پہلے لوک سبھا ویب سائٹ پر ان کے تعارف میں صاف تذکرہ تھا کہ اوم برلا کا تعلق آر ایس ایس سے رہا ہے، لیکن اب ایسی کوئی تفصیل ویب سائٹ پر موجود نہیں ہے۔ اتنا ہی نہیں، نئی تفصیل کو تبدیل کیے جانے سے پہلے تک اوم برلا کے تعارف میں بتایا گیا تھا کہ انھوں نے ایودھیا کی رام مندر تحریک میں سرگرم حصہ لیا تھا۔ اب یہ پورا پیراگراف ہی ہٹا دیا گیا ہے۔سابق پروفائل میں کہا گیا تھا کہ رام مندر تعمیر تحریک میں سرگرم طور پر حصہ لینے کے سبب اوم برلا کو اتر پردیش میں جیل بھی بھیجا گیا تھا لیکن نئے تعارف میں لوک سبھا اسپیکر کے بارے میں صرف ان کے سماجی کاموں کا ہی تذکرہ ہے۔
غور طلب ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس جس ایودھیا یا رام مندر تحریک کی بات کرتے ہیں وہ ایک سیاسی تحریک تھی جس میں پرتشدد سرگرمیوں کی بات لگاتار سامنے آتی رہی ہیں، جس کے بعد ایودھیا میں بابری مسجد کو منہدم کر دیا گیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد ملک کے کئی حصوں میں فرقہ وارانہ فساد ہوئے تھے جس میں ہزاروں لوگوں کی جان چلی گئی ۔راجستھان کی سیاست پر نظر رکھنے والے ایک سیاسی تجزیہ نگار وں کے بموجب برلا کو لوک سبھا صدر بنانے کے پیچھے ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی سمت میں ایک قدم مانا جانا چاہیے،لیکن اس بار کچھ انکساری دکھائی جا رہی ہے لیکن برلا کو ایسے عہدہ پر بٹھانا جس میں پارٹی کی سیاست سے اٹھ کر رویہ اختیار کرنا ہوتا ہے، حیران کرنے والی بات نہیں ہے کیونکہ بی جے پی کی منشا سب کو معلوم ہے۔
حال ہی میں بی جے پی چھوڑ کر کانگریس میں آئے ایک پرانے لیڈر نے کہا کہ ایک رکن پارلیمنٹ اور لیڈر کی شکل میں برلا کی واحد حصولیابی یہی ہے کہ وہ آر ایس ایس کے نزدیکی ہیں اور کسی بھی متنازعہ مسئلہ پر ان کا کوئی رخ نہیں ہوتا۔مودی نے برلا کا اس عہدہ کے لیے انتحاب کسی خاص وجہ سے کیا ہے۔کہا جارہا ہے کہ سب سے پہلی بات تو یہ کہ وہ آر ایس ایس کے قریبی ہیں اور دوسری بات یہ کہ وہ آسانی سے جھکنے والے شخص ہیں۔ مودی کبھی بھی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتے ہیں جو ان کی خواہشات یا فیصلوں سے ذرا بھی نااتفاقی ظاہر کرتا ہے۔سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ آر ایس ایس سے نزدیکیوں کے علاوہ مودی کے ساتھ ان کا سلوک بھی ان کے حق میں گیا ہے اور 2001 کے گجرات زلزلہ کے دوران برلا تقریباً 100 سویم سیوکوں اور ڈاکٹروں کی ٹیم کے ساتھ گجرات میں راحت کام میں جٹے تھے۔
غور طلب ہے کہ لوک سبھا اسپیکر عہدہ کے لیے کئی نام زیر بحث تھے، جن میں مینکا گاندھی کا نام بھی شامل تھا۔ بہر حال یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کسی کم تجربہ والے رکن پارلیمنٹ کو لوک سبھا اسپیکر بنایا گیا ہے۔ 1996 میں ٹی ڈی پی لیڈر بالایوگی کو بھی لوک سبھا اسپیکر بنایا گیا تھا وہ بھی صرف دو مرتبہ ہی رکن پارلیمنٹ بنے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد 2002 میں شیو سینا لیڈر منوہر جوشی کو لوک سبھا اسپیکر بنایا گیا تھا، جو کہ پہلی مرتبہ رکن پارلیمنٹ بنے تھے۔