حیدرآباد ۔ بی جے پی کے انتخابی منشور میں جو متنازعہ موضوعات ہمیشہ ہی سرفہرست رہے ان میں رام مندر،ہندوراشٹرا،بابری مسجد،طلاق ثلاثہ ،گائے اور کشمیر کے تناظرمیں آرٹیکل 370 قابل ذکر ہیں اور جیسے ہی دوسری معیاد میں اسے راجیہ سبھا میں اتنی اکثریت مل گئی کہ وہ اپوزیشن اور احتجاج کے باوجود کوئی بھی بل منظور کروانے کے موقف میں آگئی تو اس نے اقلیتوں کے خلاف اپنے دیرینہ خوابوں کو حقیقیت کا روپ دینے شروع کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے طلاق ثلاثہ کو قانون بنانے اور اب آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
آرٹیکل 370 کو برخاست کرنے کے اس اقدام سے چند دن قبل سےہی کشمیر میں صورتِ حال کشیدہ ہوگئی تھی اور اس اعلان سے قبل وادی میں ہزاروں اضافی فوجی تعینات کیے گئے۔وادی میں دفعہ 144 نافذ کیا گیا جبکہ حکام نے نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی محبوبہ مفتی اور جموں کشمیر پیپلز کانفرنس کے صدر سجاد لون کو ان کے گھروں میں نظربند کر دیا ہے۔دفعہ 144 کے تحت کشمیر میں عوام کی نقل و حرکت پر پابندی عائدکردی گئی ہے اور وادی کے تمام تعلیمی ادارے بھی بند کر دیے گئے ہیں ستم بالائے ستم وادی میں مواصلاتی نظام بھی معطل کردیا گیا،کیوں ایسا کیاگیا ؟حکومت کا اندازہ ہے کہ جب کسی وعدے کی خلاف ورزی ہوگی تو فریق کا غم وغصہ فطری ہوگالہذا آرٹیکل 370کے برخاست کرنے کو کشمیری کبھی قبول نہیں کریں گے لہذا سیکورٹی کو سخت کردیا گیا۔ہندوستان کی آزادی اور پھر کشمیر کے ہندوستان سے الحاق کے بعد سے ہی آرٹیکل 370 ایک متنازعہ موضوع رہا ہے جس پر اب بی جے پی حکومت فیصلہ لیا ہے اور یہ فیصلہ کیا کشمیر کے حق میں ہے یا پھر حکومت کی مطلق العنانیت کو اور مستحکم کرنے کی ایک زبردست کوشش ہے یہ سب پر عیاں ہے۔
راجیہ سبھا میں جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کو برخاست کرنے کےلئے حکومت کا سنکلپ پتر پیش کیا ۔ امیت شاہ نے کہا کہ کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کو ہٹا دیا گیا ہے ۔ اب اس کی سبھی شقیں نافذ نہیں ہوں گی ۔امیت شاہ نے ایوان میں کشمیر کی تشکیل نو کی تجویز بھی پیش کی ۔اس اعلان کے بعد اپوزیشن نے ایوان میں زبردست ہنگامہ کیا ۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ حکومت نے انہیں اس طرح کے کسی بل کی پہلے اطلاع نہیں دی تھی ۔اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود آرٹیکل 370 کو برخاست کرنے کا اعلان کردیا گیا۔
وزیر داخلہ امت شاہ نے راجیہ سبھا میں تین سنکلپ پیش کئے ۔ ان میں سے پہلے سنکلپ کو رکھتے ہوئے شاہ نے کہا کہ آرٹیکل 370 کو ہٹادیا گیا ہے ۔ دوسرا آرٹیکل 35 اے کو بھی ختم کردیا گیا ہے ۔ تیسرا جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنادیا گیا ہے اور لداخ کو جموں و کشمیر سے الگ کردیا گیا ہے ۔ اب لداخ بھی الگ مرکزی کے زیر انتظام علاقہ ہوگا ۔ حالانکہ جموں و کشمیر میں اسمبلی باقی رہے گی ۔اس اعلان کے ساتھ ہی جہاں وادی میں غم وغصہ دیکھا گیا تو دوسری جانب لداخ میں جشن کی ماحول رہا۔بی جے پی طویل عرصہ سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کی مخالفت کرتی آئی ہے ۔اب جبکہ ہندوستان میں ایک طوفان سے ماحول ہے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ آخر آرٹیکل 370 اور 35 اے کیا ہے ؟ ، اس کے خاتمہ سے جموں و کشمیر کیا اثر پڑے گا ؟
ہندوستان میں انضمام کے بعد جموں و کشمیر کے مہاراجا ہری سنگھ نے اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو سے جموں و کشمیر کے سیاسی تعلقات کو لے کر بات چیت کی تھی ۔ اس اجلاس کے نتیجہ میں دستور ہند میں آرٹیکل 370 کو شامل کیا گیا ۔ آرٹیکل 370 جموں و کشمیر کو خصوصی اختیار دیتا ہے ۔ اس آرٹیکل کے مطابق ہندوستان پارلیمنٹ جموں و کشمیر کے معاملہ میں صرف تین شعبوں دفاع ، خارجی معاملات اور ٹیلی مواصلات کیلئے قانون بناسکتی ہے ۔ اس کے علاوہ کسی قانون کو نافذ کروانے کیلئے مرکزی حکومت کو ریاستی حکومت کی منظوری چاہئے ۔ 1956 میں جموں و کشمیر کا الگ آئین بنا ۔
آرٹیکل 370 کیا ہے؟
جموں کشمیر میں آرٹیکل 370 نافذ ہونے کے بعد کیا چیزیں بدل گئیں اس کی تفصیلات بھی کافی اہم ہیں۔
جموں و کشمیر کے شہریوں کے پاس دوہری شہریت ہوتی ہے ۔
جموں و کشمیر کی کوئی خاتون اگر ہندوستان کی کسی دیگر ریاست کے شخص سے شادی کرلے ، تو اس خاتون کی جموں وکشمیر کی شہریت ختم ہوجائے گی ۔
اگر کوئی کشمیری خاتون پاکستان کے کسی شخص سے شادی کرتی ہے تو اس کے شوہر کو بھی جموں و کشمیر کی شہریت مل جاتی ہے ۔
آرٹیکل 370 کی وجہ سے کشمیر میں رہنے والے پاکستانیوں کو بھی ہندوستانی شہریت مل جاتی ہے ۔
جموں و کشمیر میں ہندوستان کے ترنگے یا قومی علامتوں کی بے حرمتی جرم نہیں ہے ۔ یہاں ہندوستان کی سب سے عدالت کا حکم قابل قبول نہیں ہوتا ۔
جموں و کشمیر کا جھنڈا الگ ہوتا ہے ۔
جموں و کشمیر میں باہر کے لوگ زمیں نہیں خرید سکتے ہیں ۔
کشمیر میں اقلیتی ہندووں اور سکھوں کو 16 فیصدتحفظات حاصل نہیں ہوتے ۔
آرٹیکل 370 کی وجہ سے جموں و کشمیر میں آر ٹی آئی نافذ نہیں ہوتا ۔
جموں و کشمیر میں خواتین پر شریعت قانون نافذ ہوتا ہے ۔
جموں و کشمیر میں پنچایت کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے ۔
جموں و کشمیر کی اسمبلی کی مدت کار چھ سال ہوتی ہے جبکہ ہندوستان کے دیگر ریاستوں کی اسمبلیوں کی مدت کار پانچ سال ہوتی ہے ۔
ہندوستان کی پارلیمنٹ جموں و کشمیر کے سلسلہ میں بہت ہی محدود دائرے میں قانون بنا سکتی ہے ۔
جموں و کشمیر میں کام کرنے والے چپراسی کو آج بھی ڈھائی ہزار روپے ہی بطور تنخواہ ملتی ہے ۔
اس صورتحال میں ایک کشمیری اس آئینی ترمیم کے بارے میں کیا سوچتا ہے، آئین کی شق 370 کے خاتمے سے وہ کیسے متاثر ہوں گے، ان کی شناخت اور معاشی حالت پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ یہ سوالات اب ہر کسی کے ذہن میں گشت کررہے ہیں۔حکومت کے اس فیصلے سے کشمیری عوام اورسیاسی لیڈرناراض ہیں چونکہ وادی میں کرفیو جیسا ماحول ہے لہذا اس فیصلہ کے خلاف فوری کوئی ردعمل نہیں ہوا لیکن طوفان کے آمد سے قبل کی خاموشی سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ کشمیری عوام کے جانب سے جو ردعمل میڈیا میں آیا ہے اس میں یہ بات صاف دیکھائی دے رہی ہے کہ کشمیریوں کا بھروسہ ختم ہوگیا ہے کشمیری یہ ماننے کو ہی تیار نہیں ہیں کہ آرٹیکل 370 کا خاتمہ درست ہے۔ کشمیری اسے نہیں مانتے۔
اب کشمیریوں کا حکومت سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے سب ختم ہو گیا ہے۔ یہ ایک ’آرٹیکل آف فیتھ‘ تھا۔یعنی یہ ایک بھروسے کا معاہدہ تھا اور ہندوستان کے ساتھ الحاق کچھ شرطوں پر ہوا تھا اور اس میں ہمارا خاص درجہ ایک بہت بڑی اور اہم چیز تھی۔آرٹیکل 370 کے خاتمے سے کس کو فائدہ ہو رہا ہے؟ کیا اس سے کشمیریوں کو کوئی فائدہ ہو رہا ہے؟ اسی بات سے اندازہ کر لیں کہ اس ترمیم کے اطلاق کے لیے کیسے اقدامات کیے ہیں، کتنے فوجی کشمیر میں تعنیات کردئے گئے، کرفیو لگا دیا ہے، انٹرنیٹ بند کر دیا ہے، مواصلات کے تمام ذرائع بند ہیں۔ان سب اقدامات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیر کے لوگ اس کے خلاف تھے اور خلاف ہیں۔ اس وقت کوئی ردِعمل نہیں دیکھ نہیں لیکن یہ سب پابندیاں اور کرفیو ہٹے گا تو اس کا ردِعمل سامنے آنے کا خدشتہ ہے ۔
آرٹیکل 370 کے خاتمے سے کشمیر کی معیشت میں کوئی بہتری آئے گی۔معیشت تبھی چلتی ہے جب امن ہو گا، آرٹیکل 370 کے خاتمے سے کشمیر میں امن آ نہیں رہا بلکہ بہت عرصے کے لیے امن قائم ہی نہیں ہو سکے گا۔ معیشت کے کسی بھی ماہر کی رائے لے لیں، وہ یہی بتائیں گے کہ معیشت کی بہتری کے لیے سب سے اہم چیز ہوتی ہے ’سیاسی استحکام ‘ اور جب ریاست سیاسی طور پر ہی غیر مستحکم ہو جائے تو باقی جتنے شعبے ہیں ان میں سرمایہ کاری کیسے آئے گی؟سیاحت پر اثر پڑنے والا ہے، کشمیریوں کی تعلیم اور کاروبار پر کافی اثر پڑسکتا ہے، یہ کہنا ہے اس آرٹیکل کے خاتمے سے کشمیر کی معیشت بہتر ہو جائے گی یہ اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ آرٹیکل 370 کے ختم ہونے کے بعد شاید وادی میں ا من کی صورت حال اور خراب ہوگی کیونکہ حکومت اس فیصلے کے ذریعہ بیرونی باشندوں اور کمپینوں کو سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرنے کا سنہرا خواب دیکھا رہی ہے لیکن جب تک وادی کشمیر میں امن نہیں ہوگا وہاں سرمایہ کاری اور ملازمت کے مواقع پیداکرنا ایسا ہے جسے تیز بارش میں گیلے کپڑوں کے خشک ہونے کی امید کرنا۔بہر کیف آرٹیکل 370 کے خاتمہ سے کشمیر میں امن قائم ہوگا اور ترقی ہوگی یہ خواب پورا ہوگا یا پھر وادی جو پہلے ہی بدامنی کی نذر ہوچکی ہے اس کی یہ آگ مزید بڑھے گی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔