ایران کے سابق صدر محمد خاتمی نے خبر دار کیا ہے کہ اگر ملک جس بحرانی صورت حال سے گذر رہا وہ برقرار رہی تو ایران میں ایک نیا انقلاب یا بغاوت پھوٹ سکتی ہے۔ عراق۔ ایران جنگ کے زخمیوں سے خطاب کرتے ہوئے سابق صدر اوراصلاح پسند رہ نما محمد خاتمی کا کہنا تھا کہ ’جب عوام ملک کے حالات سے نا خوش ہوں اور کوئی ان کے مسائل سننے کے لیے تیار بھی نہ ہو، ان کی ضروریات پوری کرنے میں کوتاہی برتی جائے، مذاکرات کے تمام دروازے بند ہوں، تنقید اور آزادی اظہار کو غیرقانونی طریقے سے دبایا جائے تو انقلاب یا بغاوت مقدر بن جاتے ہیں‘۔انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں ایرانی عوام کے تاریخی مطالبات پورے کرنے کے لیے کوئی راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ میں یہ سوال پوچھتا ہوں کہ آیا ایران میں آزادی اظہار کے لیے کوئی مناسب ماحول فراہم کر دیا گیا ہے؟وہ خود ہی اپنے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایران میں آج بات چیت اور مثبت تنقید کے دروازے بھی بند کردیے گئے ہیں۔ اگر کوئی ملک کے حالات بہتر کرنے کی بات کرتے ہوئے حکمرانوں کی کمزوریوں کی نشاندہی کرتا ہے تو اس پر الزامات کی لمبی فہرست تھوپ دی جاتی ہے۔ مشکلات اور مسائل قابل حل ہیں اور ہم اب بھی بند گلی نہیں پہنچے مگر ہمیں ملک اور قوم کو بچانے کے لیے سیاسی اسالیب اور پالیسیوں ک بدلنا ہو گا۔ایرانی رجیم کا سقوط حتمی ایران کے سابق صدر محمد خاتمی نے خبردار کیا کہ اگر اصلاحات نہ کی گئیں تو ایرانی نظام کا سقوط حتمی ہے۔ اگرہم نے اپنی اصلاح کرلی توکوئی چیز ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ادھر ایران کی 35 طلباء تنظیموں کی طرف سے سابق صدر محمد خاتمی کو ایک مکتوب ارسال کیا گیا ہے جس میں ان سے کہا گیا ہے کہ اصلاح پسند حلقے ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ مکتوب میں کہا گیا ہے کہ اصلاح پسندوں کی ملک کو بچانے کے لیے کوششیں مایوس کن یہں۔ انہیں جاندار کردار ادا کرنا ہوگا۔مکتوب میں ایرانی پارلیمنٹ، عدلیہ، بلدیاتی حکومتوں اور دیگر اداروں کی کار کردگی پر بھی مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ادارے اپنی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے۔ اس کے ساتھ ساتھ بعض اصلاح پسند رہ نماؤں کی اخلاقی اور مالی بد عنوانی نے بھی ان کے حوالے سے قوم میں مایوسی پیدا کی ہے۔