Monday, June 9, 2025
Homeتازہ ترین خبریںبنگال میں اردو بی جے پی کے نشانے پر

بنگال میں اردو بی جے پی کے نشانے پر

- Advertisement -
- Advertisement -

کولکتہ۔ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی مسلمانوں کے خلاف ہر ہتھکنڈہ اختیار کررہی ہے اور مسلمانوں سے تعلق رکھنے والے ہر اس موضوع کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی جس سے اسے انتخابات میں فائدہ ہوسکتا ہے ۔ پہلے تو صرف گائے اور دیگر موضوعات کو اہمیت دی جارہی تھی لیکن اب اردو زبان کے خلاف بھی میدان بنایا جارہا ہے۔ بی جے پی کی جانب سے انتخابات کےلئے اب اردو کو بھی موضوع بنایا جارہا ہے۔ رائے گنج پارلیمانی حلقہ جو شمالی دیناج پورضلع میں واقع ہے بیک وقت بنگلہ دیش اور بہار دونوں کی سرحد سے متصل ہونے کی وجہ سے مشترکہ تہذیب و تمدن کا حامل علاقہ ہے ۔ یہاں بنگالی بولنے والوں کے ساتھ ہندی اور اردوبولنے والوں کی بھی خاطر خواہ تعداد موجود ہے۔کانگریس کا گڑھ تصور کئے جانے اس علاقے کی سیاست میں حالیہ برسوں میں تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے ۔ایک زمانے میں جہاں آل انڈیا میڈیکل سائنس انسی ٹیوٹ(ایمس) ، چائے کے باغات کی ترقی اور کسانوں کی زمین کے حصول اراضی کے خلاف تحریک کا مرکز ہوا کرتا تھا لیکن اب ان تمام بنیادی مسائل پر این آر سی، ہندی بمقابلہ اردو اور دراندازوں کو نکال باہر کرنے والے جذباتی نعرے اور غیر ضرور مسائل حاوی ہوگئے ہیں۔

سی پی آئی ایم کے امیدوار اور رکن پارلیمنٹ محمد سلیم کو اس مرتبہ چہار رخی مقابلے کا سامنا ہے۔ 2014 میں محمد سلیم نے اپنے حریف و سابق مرکزی وزیر کانگریس لیڈر دیباداس منشی کو محض 1,634ووٹوں سے شکست دی تھی ۔1952سے ہی یہ علاقہ کانگریس کا گڑھ رہا ہے لیکن گزشتہ پانچ سال کے دوران حکمراں جماعت ترنمول کانگریس اور بی جے پی دونوں نے اس علاقے میں اپنی پکڑ مضبوط کی ہے ۔

رائے گنج لوک سبھا حلقے میں ہندو اور مسلم آبادی کی شرح میں ایک فیصد کا فرق ہے ۔ مسلم آبادی یہاں 51 فیصد ہے جب کہ ہندو آبادی 49 فیصد ہے ۔بی جے پی کو امید ہے کہ مسلم ووٹ کانگریس، بایاں محاذ اور ترنمول کانگریس کے درمیان تقسیم ہوجائیں گے اور اس کا فائدہ بی جے پی کو ملے گا۔کسی بھی امیدوار کو جیتنے کیلئے 30 فیصد ووٹ کا حاصل کرنا کافی ہے ۔

2014 میں محمد سلیم نے 29 فیصد ووٹ حاصل کئے تھے۔کانگریس کی دیپاداس منشی نے 28.5فیصد، بی جے پی اور ترنمول کانگریس کے امیدوار وں نے بالترتیب 18.32 اور 17.39فیصد ووٹ حاصل کئے تھے ۔ محمد سلیم واحد مسلم امیدوار ہے لیکن مسلم ووٹ پولرائزہوسکتے ہیں ۔چوں کہ شروع سے ہی یہ بات گردش کررہی ہے کہ مسلم ووٹ کی تقسیم سے بی جے پی کامیاب ہوسکتی ہے اس لیے زیادہ امکان ہے کہ مسلم اس امیدوار کے حق میں متحد ہوجائے جو بی جے پی کو شکست دینے کی موقف میں ہو۔ بی جے پی ستمبر 2018میں دارویٹ ہائی اسکول میں اردو اور سنسکرت کے اساتذہ کی بحالی کے خلاف احتجاج کے دوران دوسابق طالب علموں کی موت کے معاملے کو اٹھارہی ہے ۔ یہاں کے طلبہ سائنس کے ٹیچر کا تقرر چاہتے تھے لیکن حکومت نے اردو اور سنسکرت کے ٹیچر کو بھیج دیا تھا۔

 دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ احتجاج اردو اورسنسکرت دونوں ٹیچروں کے خلاف ہورہے تھے لیکن بی جے پی صرف اردو ٹیچر کے تقررکو نمایاں کررہی ہے ۔ بی جے پی کے قومی صدر امیت شاہ نے رائے گنج میں ریالی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اسکولوں میں ا ردو کو مسلط کر رہی ہے ۔ اسی طرح بی جے پی این آرسی اور دراندازی کی سیاست کرکے ہندو ووٹوں کو پولرائزکرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ جب کہ اسلام پور سب ڈویژن میں اردو بولنے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے ۔ یہاں کے بیشتر اسکولیں ملٹی میڈیم اسکول ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اردو میڈیم ختم ہوتا جارہا ہے ۔بیشتر اردو میڈیم اسکول میں اساتذہ کی قلت ہے ۔

اسلام پور شہر میں اردو میڈیم اسکول کے ایک ٹیچر نے نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر کہا کہ ہندوستان کی آزادی کے وقت یہ علاقہ اردو بولنے والوں کا تھا اور یہاں کے 50 فیصد اسکول اردو میڈیم ہوا کرتے تھے ۔ پہلے حکومت نے ملٹی میڈیم اسکول بنایا اور اس کے بعد اردو ٹیچروں کی قلت کی وجہ سے اردو میڈیم اسکول ختم ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ بایاں محاذ نے اگر ناانصافی کی ہے تو ترنمول کانگریس نے بھی اردو کے ساتھ سوتیلا سلوک کیاہے ۔ داڑی ویٹ اسکول میں ہنگامہ آرائی کے درپردہ وہ ترنمول کانگریس کے امیدوار کنہیا لال اگروال پر انگلی اٹھاتے ہیں۔ خیال رہے کہ رائے گنج بنگال کے ان علاقے میں سے ایک ہے جہاں آر ایس ایس کافی عرصے سے محنت کررہی ہے ۔ بی جے پی امیدوار نے داڑی ویٹ اسکول سے ہی اپنی مہم کا آغاز کیا ہے ۔ یہاں 18اپریل کو رائے دہی مقرر ہے ۔

رائے گنج لوک سبھا حلقے میں جملہ 7 اسمبلی حلقے ہیں جس میں اسلام پور،گوال پوکھر،چکولیہ،کرن دیگھی،ہیمت آباد،کالیا گنج اور رائے گنج شامل ہیں۔ 2016کے اسمبلی انتخاب میں چونکہ کانگریس اور بایاں محاذ نے مل کر انتخاب لڑا تھا اوردونوں نے سات میں سے پانچ نشتوں پر کامیابی حاصل کی۔ جبکہ ترنمول کانگریس کو دو نشتوں پر کامیابی ملی۔ بی جے پی اپنا کھاتہ کھولنے میں بھی ناکام رہی۔اسلام پور سے کانگریس کے ٹکٹ پر کنہیالال اگروال کامیاب ہوئے تھے وہ اب ترنمول کانگریس میں شامل ہوچکے ہیں، اس مرتبہ ترنمول کانگریس کے امیدوار بھی ہیں۔ بی جے پی کی امیدوار دیبو شری چودھری گزشتہ مرتبہ بردوان۔ درگا پور سے انتخاب لڑا تھا لیکن ا س مرتبہ پارٹی نے انہیں رائے گنج سے امیدوار بنایا ہے ۔دیبوشری کو امیدوار بنائے جانے کی وجہ سے رائے گنج کے بی جے پی حامیوں میں ناراضگی بھی ہے ۔

محمد سلیم کے حامیوں کا ماننا ہے گزشتہ پانچ سال تک انہوں نے بلاتفریق مذہب و ملت لوگوں کی مدد کی ہے ۔سیلاب متاثرین کی مدد کرنے میں محمد سلیم پیش پیش رہے ہیں۔ اس لیے رائے گنج میں مختلف مقامات پر یہ پوسٹر لگے ہوئے ہیں ، پھر سے سلیم،دل سے سلیم ۔پرچہ نامزدگی داخل کرتے وقت بی جے پی نے آر ایس ایس کی تنظیمی مدد،ترنمول کانگریس کے مشل پاورکا مظاہرہ ہوا وہیں محمد سلیم نے 6کلو میٹر طویل جلوس نکال کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا۔