سری نگر ۔ کشمیر میں پانچ ماہ سے سیاسی تعطل جاری ہے لیکن حکومت نے ایک مرتبہ پھر جنوبی امریکہ اور افریقہ کے بعض ممالک کے سفارتکاروں کو وادی کے دورے کی اجازت دے دی ہے۔ان سفارتکاروں کا 17 رکنی وفد جمعرات کو وادی کے دورے پر سری نگر پہنچا جہاں سب سے پہلے وفد نے سری نگر میں تعینات فوج کی پندرہویں کور کے ہیڈ کوارٹر پر سینئر فوجی قیادت کے ساتھ ملاقات کی۔انڈین فوج نے وفد کو کشمیر کے اندرونی حالات اور لائن آف کنٹرول پر سکیورٹی صورتحال کے بارے میں آگاہ کیا۔
ذرائع کے نے جو تفصیلات اس ملاقات کے متلق جاری کی ہیں اس کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ وفد کو بتایا گیا کہ گذشتہ برس پاکستانی فوج نے ساڑھے تین ہزار مرتبہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کر کے فوجی اور عوامی املاک کو نشانہ بنایا ہے اور وادی میں تخریب کاری کا ذمہ دار پڑوسی ملک ہے ۔ اس کے بعد وفد زبرون ون پہاڑی سلسلہ پر واقع ہوٹل میں مقیم ہوا جہاں کئی ایسے کشمیری سیاستدانوں نے ان کے ساتھ ملاقات کی جنھوں نے پانچ اگست کو کشمیر کی تقسیم اور اس کے مقامی آئینی حقوق سلب کرنے کے تاریخی فیصلے کی مخالفت نہیں کی تھی۔
وفد میں جنوبی امریکہ، افریقہ اور بعض خلیجی ممالک کے سفارتکار شامل ہیں۔ ان میں نئی دہلی میں مقیم امریکہ اور ناروے کے سفیر بھی ہیں۔ واضح رہے ناروے اور امریکہ ماضی میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تناوکم کرنے کے حوالے سے کافی سرگرم رہے ہیں۔ ماضی کے برعکس یہ دورہ نہایت رازداری کے ساتھ شروع ہوا۔
گذشتہ برس اکتوبر میں یورپی یونین کی پارلیمنٹ میں دائیں بازو کی جماعتوں کے اراکین کا وفد کشمیر آیا تو ہندوستان میں اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے اس پر ہنگامہ برپا کر دیا تھا۔ گزشتہ کئی ماہ سے کشمیر اور کشمیریوں کی جو حالت ہے وہ سب پر عیاں ہے جہاں بنیادی ضروریات پر بھی قدغن لگادیا گیا ہے اور انٹرنیٹ جسی دیگر کئی بنیادی ضروریات پر بھی پابندی لگی ہوئی ہے۔کئی ممالک کے وفد کے دورہ کشمیر کے باوجود عام کشمیری عوام میں اس دورے سے متعلق کوئی خاص توقع نہیں پائی جارہی ہے۔
سیاسیات کے محقق شوکت ساحل نے واضح کردیا ہے کہ ہندوستان ملک سے باہر کہتا ہے کہ کشمیر ہندوستان کا اندرونی مسئلہ ہے۔ دہلی میں کہا جاتا ہے کہ یہ اندرونی مسئلہ ہے۔ کوئی ملک ثالثی کی پیشکش کرے تو اسے مسترد کیا جاتا ہے، لیکن اب یہ وفود کے دورے سمجھ بالاتر ہیں کیونکہ اگر ہندوستان واقعی کشمیر پر غیرملکی ثالثی چاہتا ہے تو یہ رازداری کیوں؟‘فردوس الہی کے بیان کی روشنی میں کچھ نتائج اخذ کرنے کی کوشش کریں تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ تین سابق وزرائے اعلی جیل میں ہیں، لوگوں کی بڑی تعداد قید سے پریشان ہے، اظہار رائے کی آزادی پر قدغن ہے، انٹرنیٹ معطل ہے اور فون رابطے محدود ہیں۔ ایسے میں سکیورٹی حصار میں آنے والے یہ غیرملکی مہمان کیا کریں گے۔
گذشتہ برس اکتوبر میں یورپی یونین کی پارلیمنٹ میں دائیں بازو کی جماعتوں کے اراکین کے وفد کو کڑی سرکاری نگرانی میں چنیندہ لوگوں سے ملنے دیا گیا تھا۔ اس بار بھی دورے پر آئے سفارتکاروں کی صرف ان سیاسی یا سماجی شخصیات سے ملاقاتیں ہوئیں جنھوں نے پانچ اگست کو کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت تبدیل کیے جانے کے تاریخی فیصلے کی مخالفت نہیں کی ہے۔
سینئر کالم نگار شیخ قیوم نے اس بارے میں فقط یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ یہ لوگ کشمیر آئے ہیں، کشمیریوں کے پاس نہیں آئے ہیں۔کشمیر کے حالات کے تجزیہ اگر گزشتہ دس برس کے دوران کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ 2004 میں کشمیر کے حالات نسبتاً پرسکون تھے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں آج جیسی تلخی نہیں تھی، اور مسلح تشدد کے واقعات کی تعداد بھی بہت کم تھی۔ حریت کانفرنس کے بعض لیڈر حکومت ہند کے ساتھ مذاکرات کے ایک اور دور کی تیاری میں مصروف تھے لیکن اسی سال جب یورپی یونین کا ایک پارلیمانی وفد کشمیر آیا تو وفد کے اراکین نے کشمیرکے طول و عرض میں موجود فوجی، نیم فوجی اور پولیس تنصیبات اور عہدیداروں کی بڑی تعداد کو دیکھ کر کہا تھا کہ کشمیر ایک خوبصورت قید خانہ ہے۔
گزشتہ 15 برس کے دوران کشمیر میں کم از کم تین مرتبہ ہمہ گیر عوامی تحریک برپا ہوئی جسے دبانے کے لیے وسیع پیمانے کا کریک ڈاون کیا گیا۔ ہزاروں لوگ مارے گئے، ہزاروں دیگر زخمی ہو گئے، سینکڑوں جیلوں میں ہیں۔ ان تحریکوں کے دوران کئی کئی مرتبہ کرفیو نافذ رہتا تھا، موبائل انٹرنیٹ معطل رہتا تھا، لیکن سڑکیں مکمل طور پر مسدود اور رابطے اس درجہ مفلوج نہیں تھے۔ گذشتہ چند ماہ سے کشمیر کے لوگ ایک دوسرے کا حال چال پوچھنے سے قاصر ہیں۔