حیدرآباد ۔ حیدرآباد اور حیدرآبادیوں کےلئے ماہ ستمبر کئی ایک تلخ یادوں کی دکھ بھری داستان اپنے دامن میں رکھتا ہے شاید اس لئے بھی حیدرآباد میں ستمبر کو ” ستم گر” کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ویسے تو ماہ ستمبر میں حیدرآباد اور حیدرآبادوں نے کئی ایک مصائب کا سامنا کیا ہے لیکن ان سب میں سقوط حیدرآباد کی خونی تاریخ سب سے بڑا حادثہ ہی تصور کیا جاتا ہے۔ایک جانب ستمبر میں حیدرآبادیوں کو ایک خوفناک واقعہ کا سامنا کرنا پڑا تو دوسری جانب مسلم مخالف ذہنیت رکھنے والی بی جے پی اور اس حلیف جماعتیں17ستمبر حیدرآباد کی آزادی کا جشن منانے کا اعلان کرتے ہوئے زخموں پر نمک چھڑکنا کا کام کرتی ہے اور اب تو ایک اور مسلم اکثریتی آبادی والی ریاست کشمیر کی خود مختاری ختم کرنے کے بعد حیدرآبادی خونی تاریخ پر جشن منانے کی بات کی جارہی ہے۔تاریخ گواہ ہے کس طرح نظام کی ریاست حیدرآبادکی خود مختاری ختم کرنے اور اسے ہندوستان میں ضم کرنے کے لئے پولیس کارروائی کے نام پر فوجی کارروائی کرتے ہوئے مسلمانوں کی جان،مال،عزت آبرو کا نہ صرف نشانہ بنایا گیا بلکہ حیدرآبادیوں کو اجتماعی خودکشیوں پر مجبور کیا گیا تھا اور یہ ہم نہیں کہ رہے ہیں بلکہ اس وقت حکومت کی جانب سے قائم کردہ سندرلال کمیٹی کی رپورٹ میں ہونے والے انکشافات ہے لیکن ارباب مجاز نے سندر لال رپورٹ کو کئی دہوں سے دبا کر رکھا دیا گیا۔
نظام حکمرانی کے خاتمے کے موقع پر ہر سال 17 ستمبر کو حیدرآباد یوم آزادی منانے کے لئے بی جے پی اور زعفرانی جماعتیں زوردیتی ہیں لیکن تاریخ کا یہ سیاہ باب ہماری نصابی کتب میں نمایاں نہیں ہےاور نہ ہی اس میں ہوئے وحشیانہ تشدد کو منظر عام پر پیش کیا جاتا ہے ۔ستم گری کی داستانوں کے حقائق جو آج بھی راز کے پردوں تلے دفن ہے۔حیدرآباد کو ملک کی آزادی کے بعد ہندوستان میں شامل کرنے سے لیکر دکن میں خون کی ہولی کھیلنے جانے تک ایک درد ناک داستان ہے جو آج بھی حیدرآباد یوں کے زخموں کو ہرا کرتی ہیں۔
ریاستِ حیدرآباد دکن جس کا جغرافیائ نقشہ ہر دور میں بدلتا رہا 17ستمبر 1948 تک جب ہندوستانی فوجوں نے نظام کی حکومت کا خاتمہ کیا اس وقت تک بھی ایک عظیم رقبہ پر پھیلا ہوا 86ہزار مربع میل پر پھیلا ہوا انگلستان اور اسکاٹ لینڈ کے مجموعی رقبے سے بھی زیادہ تھا۔ 1923میں خلافتِ عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد اگرچیکہ اسلامی مملکتیں جو باقی تھیں سعودی عرب’ افغانستان و ایران وغیرہ پر مشتمل تھیں لیکن خوشحالی و شان و شوکت کے لحاظ سے ریاستِ حیدرآباد کو جو بین الاقوامی مقام تھا اس کا ذکر آج بھی انگریز مصنفین کی تصانیف میں موجود ہے۔۔ لارڈ ماؤنٹ بیاٹن نے اپنی سوانح حیات میں تذکرہ کیا ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب انگلستان معاشی طور پر دیوالیہ ہو چکا تھا ایسے وقت میں نواب میر عثمان علی خان کے گراں قدر عطیات نے بڑی حد تک سہارا دیا۔ مکہ معظمہ اورمدینہ منورہ کے پانی اور بجلی کے خرچ بھی ریاستِ حیدرآباد نے اپنے ذمے لے رکھے تھے اور اس عظیم مقصد کے لیے مدینہ بلڈنگ کے نام سے شان دار عمارتیں جو آج بھی باقی ہیں مکہ اور مدینہ کے لیے وقف تھیں جن کے کرایے مکہ اور مدینہ کو بھیجے جاتے تھے اس کے علاوہ حاجیوں کو رہنے کے لیے رباط کے نام سے نظام نے مکہ اور مدینہ میں حرمین سے قریب عمارتیں بنوادی تھیں۔ اس شاندار ماضی کے حامل حیدرآباد کی آزاد ہندوستان کے ساتھ ایک خونی تاریخ شروع ہوئی کیونکہ آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہروکی سرپرستی میں حیدرآباد ریاست کو ہندوستان میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی جس کےلئے فوجی کارروائی کا آغاز ہوا جسے ‘‘ایکشن پولو ’’ کا نام دیا گیا ایکشن پولو ایک کوڈ نام تھا جو حیدرآبادریاست کو 1948 میں ہندوستان میں شامل کرنے کےلئے کی جانے والی فوجی کارروائی تھی جو بعد میں فوجی بربریت میں تبدیل ہوگئی ۔
حیدرآباد کی شکست پر سروجنی نائیڈو کا اظہار دکھ
سقوط حیدرآباد 1948کو بھلے ہندوستان کی تاریخ کا سنہرا باب اورسردار ولبھ بھائی پٹیل کاایک عظیم کارنامہ سمجھا جاتا ہومگر اچھی خاصی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے،بالخصوص آندھرا پردیش میں‘جو آج بھی سقوط حیدرآبادکے عمل کوایک آزاد ریاست پر حملہ قرار دیتی اوریہ سوال اٹھاتی رہتی ہے کہ کیا حیدرآباد کا سقوط ہندوستان کا درست اورجائز قدم تھاسیدعلی ہاشمی کی انگریزی کتابAn Avoidable Invasion : 1948 Hyderabad (حیدرآباد۱۹۴۸:ایک قابلِ گریز حملہ)میں حکومتِ ہند اورنظام حیدرآباد کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات کی آنکھیں کھولنے والی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔ اسی کتاب میں اس وقت کی اترپردیش کی گورنرسروجنی نائیڈوکا واقعہ بھی تحریر ہے جس میں انہوں نے حیدرآباد کی شکست پر اپنے گہرے دکھ کا اظہارکیا تھا۔
مصنف نےدیباچے میں اُن دنوں اترپردیش کی گورنر سروجنی نائیڈوکاایک واقعہ تحریر کیاہے۔ وہ سقوط حیدرآباد کے تعلق سے اپنےجذبات کااظہاریوں کرتے ہیں……’’بتایا جاتاہے کہ قوم پرست لیڈر اورمجاہدین آزادی میں اہم مقام کی حامل سروجنی نائیڈو اپنے آنسو نہیں روک پائیں جب انہوں نے سنا کہ نظام حیدرآباد نے ہندوستان کی حکومت کے سامنے خودسپردگی کردی ہے۔انہوں نے کہا’آج میرے ملک نے اپنی آزادی کھودی ہے۔‘انہوں نے لرزتی آواز میں کہا’ایک حیدرآبادی کے ناطے میں اپنے ملک کی شکست پرماتم کناں ہوں۔‘ان دنوں محترمہ سروجنی نائیڈواترپردیش کی گورنر تھیں۔
حیدرآباد کا الحاق
ستمبر 1948 میں ، ہندوستانی فوج نے اس وقت کی شاہی ریاست حیدرآباد کی طرف مارچ کیا۔ جس کو آپریشن پولو کا نام دیا گیا جس کا مقصد نظام شاہی حکومت کا خاتمہ اور ریاست حیدرآباد کو ہندوستان میں شامل کرنا تھا۔ہندوستان کی سابق ریاستوں نے انگریزوں کے ساتھ معاون اتحاد برقرار رکھا تھا جس کے ذریعے وہ اپنے علاقوں میں خودمختاری کا لطف اٹھاتے تھے لیکن ہندوستان کے آزادی ایکٹ 1947 میں ایسے تمام اتحاد معطل کردیئے گئے ، جس سے ہندوستانی ریاستوں کو مکمل آزادی کا انتخاب کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ لیکن 1948 تک ، ان میں سے تقریبا تمام ریاستوں نے ہندوستان یا پاکستان میں ضم ہونے کا فیصلہ کرلیا تھا لیکن حیدرآباد اپنے موقف پر اٹل تھا ۔
حیدرآباد کے نظام ، عثمان علی خان ، اصف جہاں ہشتم نے آزاد ریاست رہنے کو ترجیح دی تھی اور اپنا اقتدار قائم رکھنے کی حتی المقدور کوشش کی لیکن دوسری جانب جواہر لال نہرو کی سرپرستی میں نو تشکیل شدہ آزاد ہندوستانی حکومت ریاست حیدرآباد کو ہندوستانی یونین میں ضم کرنے کے لئے بے چین تھی۔ اس کے لئے ریاست حیدرآباد میں ہندو آبادی کے خلاف رضاکاروں کا اشتعال اورتشدد اور کا پروپیگنڈہ کررتے ہوئے سردار پٹیل نے ستمبر 1948 میں پولیس ایکشن حکم دیا۔ پانچ دن میں جس کو کسی حد تک گمراہ کن طور پر پولیس ایکشن کہا گیا وہ ہندوستانی فوج کی کارروائی تھی جس میں اس نے حیدرآبادی رضاکاروں کو شکست دے کر حیدرآباد جمہوریہ ہند کا ایک حصہ بنایا گیا فوجی کارروائی کے دوران مسلمانوں کی جان اور مال کو تباہ کرنے کے علاوہ خواتین کی عصمت ریزی اور بچوں پر ظلم کی ایک بھیانک داستا ن ہے جس سندرلال کمیٹی نے پیش کیا تھا لیکن اس سند رلال کمیٹی کی رپورٹ کو منظر عام پر لانے کی ہر کوشش کو دبادیا گیا ۔
سندر لال کمیٹی کی رپورٹ کو منظر عام پر لانے کی بی جے پی میں ہمت نہیں؟
تقسیم ہند پر تمام ریاستیں ملک کا حصہ بننے پر تیار تھیں لیکن حیدر آباد کے نظام کا فیصلہ تھا کہ وہ خودمختار ہی رہیں گے۔حیدر آباد اور حکومت ہند کے درمیان یہ معاملہ افہام و تفہیم سے طے نہ ہو سکا اور حکومت کی برداشت کی طاقت ختم ہوگئی۔ حکومت یہ بھی نہیں چاہتی تھی کہ وسط ہندوستان میں ایک مسلمان ریاست کو خودمختار رہنے دیا جائے۔ستمبر 1948 میں اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے فوج کو حیدر آباد میں داخل ہونے کے احکامات جاری کیے۔اس کے فورا بعد ہی ، ریاست سے بڑے پیمانے پر تشدد کی اطلاعات سامنے آئیں ، جس نے ہندوستانی فوجیوں پر بے رحمی سے قتل اور مسلم آبادی کو سنگسار کرنے پر تنقیدیں شروع ہوئی ۔ گھبرائے ہوئے نہرو نے پنڈت سندر لال ، قاضی عبد الغفار ، اور مولانا عبد اللہ مصری کی سربراہی میں اس معاملے کی تحقیقات اور رپورٹ پیش کرنے کے لئے ایک مخلوط کمیٹی تشکیل دی۔ وزیر اعظم نے ایک ٹیم تشکیل دی جس میں مختلف مذاہب کے افراد شامل تھے کہ وہ حیدر آباد جائیں اور تحقیقات کریں۔ اس ٹیم کی قیادت کانگریس کے رکن پنڈت سندر لال نے کی۔ اس ٹیم نے ریاست میں واقع کئی دیہات کا دورہ کیا، لیکن ان کی تشکیل کردہ رپورٹ کبھی منظرِ عام پر نہیں آئی۔
سندرلال رپورٹ کا یہ وفد پنڈت سندر لال ‘قاضی عبدالغفار اورمولانا عبداللہ مصری پر مشتمل تھا۔ اور یہ 29نومبر کو حیدرآباد پہنچا اور21ڈسمبر 1948کو دہلی واپس ہوا۔ اس مدت کے دوران وفد نے ریاست کے 16اضلاع کے منجملہ9 کا دورہ کیا۔ 7ضلع مستقر،21 ٹاون اور 23 مواضعات کے علاوہ وفد نے 500 سے زائد افراد جن کا تعلق 109مواضعات سے ہے جہاں وفد نے دورہ نہیں کیا وہاں انہوں نے انٹرویو لیا ہے ۔ مختلف مقامات پرمزید 31جلسوں،27 خانگی نشستوں جن میں ہندومسلم ،سرکاری عہدیداران کے ارکان مختلف تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے والے طلبہ واسٹاف،ترقی پسند مصنفین کی اسوسی ایشن کے ارکان ،ہندوستانی پرچار سبھا وغیرہ کے نمائندوں، مندوبین وکارکن شامل تھے سے خطاب کیا۔
سندر لال رپورٹ میں ہندوؤں کی جانب سے کی گئی بہیمانہ کارروائیوں کا احوال بھی درج کیا گیا ہے ۔ سندر لال رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے، کئی علاقوں میں ہمیں کنویں دکھائے گئے جو اس وقت بھی لاشوں سے بھرے پڑے تھے ۔ ایک جگہ ہم نے 11 لاشیں گنیں جن میں ایک بچہ ایک عورت کی سینے کے ساتھ چمٹا ہوا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے ہم نے کھڈوں میں لاشیں پڑی دیکھیں۔ کئی جگہوں پر مسلمانوں کی لاشوں کو آگ لگائی گئی تھی اور ہم جلی ہوئی لاشیں اور کھوپڑیاں دیکھ سکتے تھے ۔ سندر لال رپورٹ کے مطابق صرف 4 دن میں 27 سے 40 ہزار افراد کو قتل عام کیا گیا۔
تقریباً تمام مقامات پر متاثرہ علاقو ں میں فرقہ وارانہ جنون صرف قتل تک محدود نہیں رہا ۔ مردوں کے علاوہ عورتوں اوربچوں کو بھی نہیں بخشاگیا۔ عصمت ریزی اور عورتوں کا اغو( کئی واقعات میں ریاست حیدرآباد کے باہر ہندوستانی شہروں جیسے شوالاپور، ناگپور سے آکر یہ جرائم کئے گئے) لوٹ مار، آتشزدگی، مساجد کی بے حرمتی، جبری تبدیلی مذہب،مکانات اور اراضیات پر قبضے ہیں۔ کروڑہا روپئے مالیت کی املاک لوٹ لی گئی یا تباہ کردی گئیں اور متاثر ہونے والے مسلمان جو دیہی علاقوں میں بے یارومددگار ایک اقلیت ہے یہ مظالم ریاست حیدرآباد کے غیر مسلموں پر نہیں تھے ۔ یہ مظالم انفرادی افراد کے علاوہ عوام کے ہجوم نے بھی انجام دیئے ۔
مسلح یا غیرمسلح ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو ہندوستانی فوج کے ریاست حیدرآباد میں داخلہ کے ساتھ سرحد پار سے داخل ہوگئے ۔ ہندوستانی فوج کے کردار کے بارے میں سندلال رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہمارے فریضہ نے ہمیں اس بات کے لئے مجبور کیا ہے کہ ہم نے ان میں بالکل ناقابل تردید واقعات کابھی ذکر کریں جہاں ہندوستانی فوج اورمقامی پولیس نے کیسے لوٹ مار اور دیگر جرائم میں حصہ لیا ہے ۔ سندرلال رپورٹ کے وفد نے بیان کیا ہیکہ جس طرح سے ہم سے خواہش کی گئی ہے کہ اسی کی بنیاد پر ہم نے کام انجام دیا ہے ۔ اگر ایسی خواہش کی جاتی ہے تو ہم وہ تمام مناسب وموزوں مواد جسے ہم نے اکھٹا کیا ہے آپ تمام کے سامنے پیش کرنے کے لئے تیار ہیں۔
65 سال سے سندر لال کمیٹی رپورٹ کودرپردہ رکھا گیا۔ کیوں؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی دستاویزات میں بڑی تعداد میں انسانی جانوں کا ضیاع ، لوٹ مار ،خواتین کی عصمت ریزی ہے اور یہ سب آزادی کے نام پر ہوا تھا ؟کیا ہم اسے آزادی سے تعبیر کر سکتے ہیں؟ کیا آزادی ضروری طور پر انسانی جانوں اور وقار کی قیمت پر آتی ہے؟کیا حیدرآباد یوم آزادی منانا ایک قابل نفرت انسانی المیہ کی تاریخ کو مجروح نہیں کرتا ہے؟اور حیدرآبادیوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف نہیں ہے۔