Tuesday, June 17, 2025
Homeٹرینڈنگجیوتر آدتیہ سندھیا نے اپنی خاندانی بغاوت کی  روایت کو برقرار رکھا

جیوتر آدتیہ سندھیا نے اپنی خاندانی بغاوت کی  روایت کو برقرار رکھا

- Advertisement -
- Advertisement -

نئی دہلی ۔کسی بھی سیاسی لیڈر کا کسی جماعت سے برسوں وابستہ رہنے کے بعد اچانک کسی اور جماعت خاص کر کہ کٹر حریف جماعت میں شامل ہوجانا کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن جیوترآدتیہ سندھیا نے کانگریس کے ساتھ جو کچھ کیا ہے اس کے ذریعہ انہوں نےاپنے خاندان کی روایت کو برقرار رکھا ہے کیونکہ ماضی میں ان کے اباواجداد نے بھی ایسے ہی کارنامہ انجام دئے ہیں۔جیوترآدتیہ سندھیا نے کل جو کچھ کیا ہے وہ ان کے خاندان کے لئے کوئی نیا نہیں ہے۔وقتی طور پر کانگریس اور مدھیہ پردیش کے لئےانہوں نے پریشانیاں ضرور کھڑی کی ہیں اور اپنے لئے انہوں نے ضرور کچھ سیاسی فائدہ اٹھا لئے ہیں لیکن سیاست کے لمبے سفر میں انہوں نے اپنا قد بہت چھوٹا کر لیا ہے۔

ان کی دادی راجماتا وجے راجے سندھیا نے 1967 میں کانگریس کی حکومت گراکر مدھیہ پردیش میں مخلوط حکومت قائم کی تھی ۔اس وقت انہوں نے اس وقت کے چیف منسٹر  ڈی پی مشرا کی حکومت سے35 ارکان کے ساتھ اس لئے علیحدگی اختیار کر لی تھی کیونکہ چیف منسٹر نے راج گھرانے پر تنقید کر دی تھی۔ اس کے بعد گووند نرائن سنگھ وہاں کی مخلوط حکومت کے چیف منسٹر بنے تھے جو حکومت محض 19 ماہ ہی چل پائی تھی۔

وجے راجے سندھیا نے اس کے بعد جن سنگھ میں شمولیت اختیار کر لی اور پھر ان کے بیٹے اور جیوترآدتیہ سندھیا کے والد مادھو راؤ سندھیا سیاست میں داخل ہوئے اور 26 سال کی عمر میں وہ گنا کی نشست سے انتخاب جیتے۔ 1977 میں وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے لڑے اور جیتےاور پھر انہوں نے اپنے خاندان کو چھوڑکر کانگریس میں شمولیت اختیار کر لی کیونکہ اس وقت کانگریس اقتدار میں تھی۔انہوں نے گوالیار سے 1984 میں اٹل بہاری واجپائی کوشکست دی تھی ۔

مادھو راؤ سندھیا بھی جب چیف منسٹر نہیں بن پائے تھے تو انہوں نے کانگریس چھوڑکر یونائٹڈفرنٹ کی حکومت میں شمولیت اختیارکر لی تھی اور پھر بعد میں دوبارہ کانگریس میں آ گئے تھے۔ اگر سندھیا راج گھرانے کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تواندازہ ہوتا ہے کہ  یہ اقتدار کے علاوہ کبھی کسی کے سگے نہیں ہوئے ۔ بغاوت کرنا اور واپس آنا ان کے خون میں ہے اور وہ کسی نظریہ کے ساتھ نہیں جڑے ہیں۔خود مادھو راؤ سندھیا کی دو بہنیں بی جے پی میں ہیں۔سندھیا کے اس عمل سے یہ واضح ہو گیاہے کہ وہ اقتدارکے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اور ان کو اپنے رائے دہندگان سے کوئی مطلب نہیں ہے ،ان کی سوچ ابھی بھی وہی راج گھرانے والی ہے۔