Saturday, June 7, 2025
Homesliderحجاب معاشرے میں ترقی کی راہ کی رکاوٹ نہیں :برطانوی جج رفیقہ

حجاب معاشرے میں ترقی کی راہ کی رکاوٹ نہیں :برطانوی جج رفیقہ

- Advertisement -
- Advertisement -

لندن: باپردہ مسلم خواتین اپنی صلاحیتوں کے مطابق مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ سکتی ہیں اور حجاب معاشرے میں ان کی ترقی کی راہ میں حائل نہیں ہوتا۔ ان خیالات کا اظہار برطانیہ میں پہلی سرپوش اوڑھنے والی مسلم خاتون جج رفیعہ ارشد کا نے کیا ہے۔40 سالہ رفیعہ کو گذشتہ ہفتے برطانیہ کے علاقے مڈلینڈز سرکٹ میں ڈپٹی ڈسٹرکٹ جج مقرر کیا گیاہے۔اس طرح ان کے ایک دیرینہ خواب نے تعبیر پائی ہے۔انہوں نے کہاگ میں نے 11 سال کی عمر ہی میں قانون کا پیشہ اختیار کرنے کے خواب دیکھنے شروع کردیے تھے لیکن سوال یہ تھا کہ کیا ایک نسلی اقلیت سے تعلق رکھنے اور حجاب اوڑھنے کے باوجود وہ برطانیہ میں جج کے منصب پر فائز ہوسکتی ہیں؟

برطانیہ کے جوڈیشیل دفتر کے یکم اپریل 2019 کو فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق انگلینڈ اور ویلز کی ماتحت عدالتوں میں 3210 جج کام کررہے ہیں۔ان میں صرف 205(6 فیصد) جج سیاہ فام ، ایشیائی اور نسلی اقلیتوں (بیم) کے گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ان تمام جج میں قریباً ایک تہائی 1013 (31 فیصد) خواتین ہیں۔

رفیعہ ارشد اب ان خواتین ججوں میں سے ایک ہیں۔ وہ شادی شدہ ہیں اور ان کے تین بچے ہیں۔انھوں نے اپنے تقرر کے بعد ایک انٹرویو میں کہا وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہیں کہ برطانوی معاشرت میں تنوع کی آواز بلند آہنگ ہو اور صاف انداز میں سنی جائے۔یہ صرف مسلم خواتین ہی نہیں بلکہ تمام خواتین کے لیے اہم ہے۔

انہوں نے کہا کہ انھیں بہ طور جج تقرر کے بعد مرد وخواتین دونوں کی طرف سے ای میل کے ذریعے بڑی تعداد میں تہنیتی پیغامات موصول ہوئے ہیں اورانھوں نے بالخصوص اس بات پرخوشی کا اظہار کیا ہے کہ ایک حجاب والی  خاتون بھی برطانیہ میں جج بن گئی ہے۔ان میں سے بہت سے لوگوں کا پہلے یہ خیال تھا کہ ایک عورت تو برطانیہ میں بیرسٹر بھی نہیں بن سکتی ۔

رفیعہ ارشد ویسٹ یارکشائر میں پلی بڑھی تھیں۔ قانون کا پیشہ اختیار کرتے وقت انھیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور خود ان کے خاندان کے افراد نے ان کے حجاب اوڑھنے کی مخالفت کی تھی اور یہ کہا تھا کہ اس صورت میں ان کی کامیابی کے امکانات معدوم ہوسکتے ہیں لیکن اس کے باجود انھوں نے ہمت ہاری اور نہ ان کے عزم میں کمی واقع ہوئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب میں2001ء میں انزآف کورٹ اسکول آف لا میں ایک اسکالرشپ کے لیے انٹرویو دینےجا رہی تھی تو ہمارے خاندان کے ایک رکن نے یہ مشورہ دیا کہ میں حجاب نہ پہنوں کیونکہ اگر میں نے ایسا کیا تو میرے کامیابی امکانات ڈرامائی طور پر کم ہوجائیں گے۔حتیٰ کہ اس رشتے دار نے مجھے خبردار بھی کیا لیکن میں نے ان کے دباؤ کے آگے جھکنے سے انکار کردیا۔

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہاکہ میں اس ادارے میں حجاب پہن کر انٹرویو کے لیے گئی،میں کامیاب رہی اور مجھے وظیفے کے لیے منتخب کر لیا گیا تھا۔ میری زندگی میں یہ ایک فیصلہ کن موڑ تھا اور اس سے میرے عزم کو مزید تقویت ملی تھی۔

لندن میں قانون کی تربیت کے بعد رفیعہ نے 2002ء میں نوٹنگم میں ٹرینی وکیل کی حیثیت سے کام کا آغاز کیا تھا۔ پھرانہوں نے 2004ء سینٹ فیملی لا چیمبرز میں بہ طور بیرسٹر کام کیا۔ وہ گذشتہ 15 سال کے دوران میں بچوں ، جبری شادی ،خواتین کے ختنے اور اسلامی شریعت سے متعلق مقدمات  کی بہ طور وکیل پیروی کرتی رہی ہیں۔وہ اسلام کے عائلی قوانین کے موضوع پر ایک کتاب کی مصنفہ بھی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انہیں قانون کی پریکٹس کے دوران میں اکثر متعصبانہ رویّے کا سامنا رہا ہے اور بعض اوقات دلچسپ واقعات بھی پیش آئے ہیں۔ایک مرتبہ میں عدالت میں گئی تو مجھے ایک اردلی نے پوچھا کہ کیا میں کوئی مؤکلہ یا درخواست گزار ہوں۔اس پر میں نے جواب دیا کہ نہیں۔وہ پھرکہا کہ آپ پھر ضرور مترجم ہوں گی۔ میں نے اس کا ناں میں جواب دیا تو پھر وہ بولا شاید آپ یہاں کام کے تجربے کے سلسلے میں آئی ہوں گی۔اس کا بھی میں نے نہیں میں جواب دیا اور اس کو بتایا کہ میں دراصل ایک بیرسٹر ہوں۔

اس واقعے سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ برطانیہ ایسے معاشرے میں بھی ایک خاتون کو وکیل کے طور پر قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جاتا ہے لیکن انھوں نے واضح کیا کہ میرا تقرر خالصتاً میرٹ پر ہوا ہے اور اس بنا پر نہیں ہوا کہ میں حجاب پہنتی ہوں۔اس میں مسلم خواتین کے لیے سبق پنہاں ہے کہ وہ بھی حجاب پہن کر زندگی کے میدانوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ سکتی ہیں۔