Thursday, April 24, 2025
Homeتازہ ترین خبریںحکومت کے ابتدائی 3 ماہ میں ہی عوام کی اکثریت جگن سے...

حکومت کے ابتدائی 3 ماہ میں ہی عوام کی اکثریت جگن سے ناراض

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد۔ ریاست آندھراپردیش کے اسمبلی انتخابات میں سابق چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو کی شکست اور نوجوان قائد جگن موہن ریڈی کی جانب سے حکومت تشکیل دیئے جانے کے بعد عوام کو امید تھی کہ بنیادی مسائل پر نئی حکومت فوری توجہ مرکوز کرے گی لیکن جگن موہن ریڈی کی حکومت کے ابتدائی تین ماہ کے عنقریب تکمیل کے باوجود عوام کے بنیادی مسائل پر توجہ نہ دیئے جانے کی شکایت کی جارہی ہے۔

اب جبکہ آئندہ ہفتے جگن حکومت کے تین ماہ مکمل ہوجائیں گے لیکن اس دوران عوام کو شکایت ہیکہ حکومت بنیادی اور عوامی مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے اپوزیشن ٹی ڈی پی اور چندرا بابو نائیڈو سے حساب کتاب برابر کرنے پر اپنی ساری توانائی صرف کررہی ہے۔ میڈیا نے ایک آزادانہ سروے کرنے کے بعد ان نتائج کو منظر عام پر لایا ہیکہ ایک جانب جہاں عوام کا ایک گوشہ اس بات کی شکایت کررہا ہیکہ جگن حکومت عوامی مسائل کی بجائے بابو سے حساب کتاب برابر کرنے پر توجہ مرکوز کررہی ہے –

دوسری جانب عوام کا ایک ایسا گوشہ بھی ہے جو یہ کہہ رہا ہیکہ جگن حکومت کے متعلق کوئی بھی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہوگا کیونکہ کسی بھی حکومت کی کارکردگی کا تجزیہ ابتدائی تین ماہ میں کرنا بہتر نہیں ہوگا۔ آندھراپردیش میںنئی حکومت سے خواتین مطمئن دکھائی دیتی ہے کیونکہ وائی ایس آر حکومت نے ان تین ماہ کے دوران غیرقانونی شراب کی دکانات کو بندکردیا ہے لیکن عوام کا ایک گوشہ یہ بھی شکایت کررہا ہیکہ مقامی فیکٹریوں میں آندھرائی عوام کو ملازمتیں فراہم کرنے کیلئے 75 فیصد جو تحفظات کا اعلان ہوا ہے وہ ریاست کی ترقی کیلئے فائدہ مند نہیںہوگا جس سے آندھراپردیش کے صدر مقام امراوتی کی ترقی بھی سست روی کا شکار ہوگی۔

عوام کا ایک گوشہ اس فیصلہ کا بھی منتظر ہیکہ نئی حکومت امراوتی کی ترقیاتی پراجکٹس کے سلسلہ کو برقرار رکھے گی یا اس کے بعد کوئی اور دارالحکومت کا فیصلہ کرے گی ۔ جن کسانوں نے انتخابات کے دوران امراوتی کی ترقیاتی وعدوں کیلئے اپنی زمینات دی ہیں اور انہیں امید تھی کہ انتخابات کے بعد ان کی قربانی کا ثمرآور نتیجہ حاصل ہوگا لیکن کسانوں کو ناامیدی بڑھ رہی ہے۔

امراوتی اور گنٹور کے اطراف کے علاقوں میں اراضیات کی قیمتوں میں بھی کمی آئی ہے جس سے ریئل اسٹیٹ کا شعبہ بھی متاثر ہوا ہے۔ بابو حکومت کے خلاف عوام میں جذبات پائے تو جاتے ہیں لیکن اگر جگن موہن ریڈی اپوزیشن کے خلاف اپنی کارروائیوں کے سلسلہ کو طول دیتے ہیں تو پھر ان کی حکومت سے ناراض عوامی حلقے میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ آندھرائی عوام کی اکثریت کا یہ ماننا ہیکہ فیکٹریوں میں مقامی ملازمین کیلئے 75 فیصد تحفظات سے صنعتکاروں کی جانب سے یہاں سرمایہ کاری کا رجحان کم ہوگا۔ تعلیم کے شعبہ میں عوام کی رائے منقسم ہے کیونکہ جہاں ایک جانب خانگی اسکولوں کی فیس میں کمی کی گئی ہے تو دوسری جانب سرکاری اسکولوں کے انفراسٹراکچر کو بہتر بنانے میں ہنوز کوئی انقلابی کام منظر عام پر نہیں آیا اور نہ ہی کوئی پالیسی واضح کی گئی ہے۔