حیدرآباد۔ شہریت ترمیمی بل پر پی جے پی نے ہندوستان کے پر امن ماحول کو بگاڑا ہے اس کا کے خلاف احتجاج ابھی تو آسام میں شروع ہواہے اور اس احتجاج کی آگ سارے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لے تو اس پر حیرت نہیں ہوگی ۔ بی جے پی پے درپے متنازعہ قوانین کو منظورکرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رہی ہے اور جہاں بھی اس کے خلاف آواز بلند ہورہی ہے وہاں وہ سب سے پہلے انٹرنیٹ خدمات کو معطل کررہی ہے تاکہ اس کے خلاف بلند ہوتی صداؤں کو کچلا جاسکے ۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ حکومت نے اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کےلئے سب سے پہلے انٹرنیٹ خدمات کو ختم کیا ہے بلکہ کشمیر میں آرٹیکل 370 برخاست کرنے سے قبل بھی حکومت نے سب سے پہلے انٹرنیٹ خدمات کو ہی بند کیا تھا جو کہ آج تک وادی میں بحال نہیں ہوئی ہے۔کشمیر میں انٹرنیٹ کی ناکہ بندی کی وجہ سے موبائل فون کی فروخت میں شدید کمی نے سینکڑوں افراد کو ملازمتوں سے محروم کردیا۔ سری نگر میں موبائل آؤٹ لیٹ پر کام کرنے والے زیادہ تر ملازمین کو اگست کے بعد سے تنخواہ نہیں ملی ہے۔
سری نگر کے ریذیڈنسی روڈ پر موبائل فون آوٹ لیٹ کے سیلزمین شوکت احمد ڈار کی آپ بیتی سے پتہ چلتا کشمیر میں موبائل اور انٹرنیٹ کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو کیا کچھ برداشت نہیں کرنا پڑرہا ہے۔ احمد کو یا تویہ ملازمت چھوڑنا ہوگا یا ٹرانسفر لینا ہے۔ چاروں افراد کے کنبے کے لئے تن تنہا روزگار کمانے والے احمد جیسے ایسے درجنوں خاندان ہیں جو مرکز میں بی جے پی کی جانب سے 5 اگست کو آرٹیکل 370 کو کالعدم قرار دینے کے بعد اپنی تنخواہوں سے محروم ہیں حالانکہ احمد جیسے افراد کو ماہانہ 14ہزار روپے تنخواہ نہیں ملی ہے۔
ان افراد کی تنخواہوں کو جاری نہ کیے جانے کی ایک وجہ یہ ہے کہ کشمیر میں انٹرنیٹ ناکہ بندی کی وجہ سے آن لائن اپنی حاضری کو نشان زد نہیں کر سکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ موبائل فون کی فروخت میں 90 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ اگر میں 26 موبائیل فروخت کرتا ہوں تو تب ہی میری تنخواہ میرے اکاونٹ میں جمع ہوتی ہے لیکن کشمیر میں اب چونکہ انٹرنیٹ بند ہے لہذا موبائیل کی فروخت میں کمی واقع ہوئی ہے اوریہ نوجوان تقریبا بے روزگارہوگئے ہیں۔
ایک اور ملازم ارسلان شاہ کی بھی ایسی ہی کچھ داستان ہے جس میں اس نے کہا کہ اس کی تنخواہ اس وقت ادا ہوگی جب وہ ایک ماہ میں 26 فون فروخت کرنے کا ہدف حاصل کرے گا۔ ارسلان کے والد کو امراض قلب کا مسئلہ ہے اور وہ موبائل کی ملازمت چھوڑنے پر غور کر رہے ہیں۔ ارسلان نے کہا یہ ایک سخت صورتحال ہے ، میں نے اس سے پہلے کبھی بھی ایسا خراب وقت نہیں دیکھا تھا۔
پورے کشمیر میں موبائل فون کی مختلف شاپوں میں لگ بھگ 8000 افراد ملازم ہیں۔ارسلان نے کہا ہم آج کل کوئی موبائل فون فروخت نہیں کرپارہے ہیں لہذا اس میں ترغیب دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ سری نگر میں سیمسنگ دکانوں کے مالک منیر قریشی نے صورت حال کا ایک اور باب کھلا ہے کہ وہ انٹرنیٹ ناکہ بندی سے پہلے اپنے دو دکانوں میں اوسطا 150 فونس فروخت کرتے تھے۔ اب یہ دن میں پانچ فون ہی فروخت ہورہے ہیں۔ ہمارے علاقائی تقسیم کار ماہانہ 25 کروڑ میں بلنگ کرتے تھے ، اب یہ صرف 85 لاکھ روپے ماہانہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر میں 1450 سیمسنگ آوٹ لیٹ ہیں لیکن کاروبار میں کمی کے سبب سیمسنگ نے کشمیر کو بلیک لسٹ میں ڈال دیا ہے۔وہ ایک کوریائی کمپنی ہیں ، وہ فروخت چاہتے ہیں۔ انٹرنیٹ کے آغاز کے بعد اس کی بازیابی میں کم از کم ایک سال لگے گا۔ کشمیر نے ماضی میں اشتعال انگیزی اور طویل وقت کےلئے بد امنی دیکھی ہے لیکن صورتحال کبھی بھی ایسی خراب نہیں رہی۔اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو موبائل شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد کے پاس کاروبار تبدیل کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ حکومت کشمیر میں صرف انٹرنیٹ معطل کرنے کی بات کرتی ہے لیکن اس کے جواثرات مرتب ہورہے ہیں اس کی وجہ سے کشمیریوں کی روزی روٹی سنگین صورت حال سے دوچار ہے۔