حیدرآباد ۔تقریبا ہر ہفتے واٹس ایپ اور سوشل میڈیا گروپس میں سانپوں کو پکڑنے اور گھروں کو ان سے محفوظ بنائے جانے کی ویڈیوز آتی ہیں لیکن یہ خبریں کبھی کبھی خوفناک بھی لگتی ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حیدرآباد کی نہ جانے کی گلی اور گھر میں سانپ موجود ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ شہری علاقوں میں سانپوں کو بڑی تعداد میں پایا جارہا ہے۔
شہر ی علاقو ں میں سانپوں کی بڑھتی تعداد کے پیچھے اصل وجہ شہر کی تیزی سے توسیع ہے۔لیکن جوبات جان کر خوشی ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ لوگ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہورہے ہیں کہ سانپوں کو محفوظ مقامات پر رکھنا چاہئے اور فرینڈز آف سانپ سوسائٹی (ایف او ایس ایس (فوس)) جیسی تنظیموں تک عوام کی رسائی خوش آئند ہے ۔
گذشتہ سال فوس نے 8895 سانپوں کو حیدرآباد سے بچایا گیا تھا اس تعداد کی اکثریت تلنگانہ کے دیگر علاقوں میں پائے جانے والے سانپوں سے میں تھی۔ عوام کو سانپوں سےمحفوظ رہنے اور سانپوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے آسان اقدامات اٹھانا ہے جیسا کہ فوس کے ایک رضاکار منیش نے کہا سانپ عام طوران علاقوں میں پائے جاتے ہیں جہاں انہیں آسانی سے شکار مل جائے اور ان کے شکار چوہوں اور مینڈک وغیرہ ہوتے ہیں ۔ لوگ عام طورپر خالی پلاٹوں میں ردی اور کچرا پھینک دیتے ہیں اورکچرے کا یہ ملبہ چوہوں کو اپنی طرف راغب کرتا ہے اور جب چوہوں کی کثرت ہوتی ہے تو ایسے علاقوں میں سانپوں کی موجودگی کا امکان رہتا ہے ۔علاقوں کو صاف رکھنا ضروری ہے۔
سانپ آپ کے گھر میں داخل نہ ہونے کو یقینی بنانے کے لئے آپ کچھ چھوٹے چھوٹے اقدامات کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ دیواروں میں کوئی سوراخ نہیں ہے۔ گیٹ کے نیچے تک فائبر شیٹ لگانا سانپوں کو گھر میں داخل ہونے سے روکتا ہے ۔جب کسی گھر میں سانپ داخل ہوجائے تو اسے خود پکڑنے کی کوشش نہ کریں یا اس کے قریب بھی نہ جائیں کیونکہ سانپ کو پکڑنے کی کوشش اسے حملہ کرنے پر اکسانے کی مترادف ہوتا ہے نیز اس بات کی نشاندہی کرنا بہت بہتر ہوگا کہ سانپ زہریلا ہے یا نہیں۔
سانپ سے فاصلہ برقرار رکھنا بہتر ہے لیکن سانپ کو پکڑنے والے آنے تک اس پر نگاہ رکھیں ۔یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ تلنگانہ میں سانپوں کی 30سے زیادہ اقسام میں سے صرف چار ہی زہریلے ہوتے ہیں۔ کسی بھی صورت میں اگر آپ کو سانپ ڈس لے تو سب سے بہتر کام یہ ہے کہ زخم کو پانی سے صاف کریں اور قریبی دواخانے سے فوری رجوع ہو جائیں۔