حیدرآباد ۔ شہر حیدرآباد میں ویسے تو کئی کتب خانے موجود ہیں لیکن چند برسوں سے حیدرآباد کے کتب خانوں میں داخلی اور ظاہری مسائل سنگین ہورہے ہیں جس میں سب سے بڑا مسئلہ حکومت تلنگانہ کی جانب سے کتب خانہ کے امور کی تکمیل کے لئے فنڈ کا جاری کرنے کے باوجود مالیہ کا وقت پر دستیاب نہ ہونا ہے ۔یہ حقیقت بھی ذہن نشین کرنی چاہیے کہ عوام حکومت کو جو ٹیکس ادا کرتے ہیں اس کا کچھ حصہ ہے شہر کے کتب خانوں کی نگہداشت پر بھی صرف کیا جاتا ہے اور یہ شہریوں کا بنیادی حق ہے کہ انہیں اپنے قریبی علاقے میں بہتر وسائل سے لیس لائبریری دستیاب ہو۔
اس حقیقت سے اکثریت واقف نہیں کہ گرنتھالیم کے دفعہ 1960 کے تحت عوام جو پراپرٹی ٹیکس ادا کرتے ہیں اس میں ہر روپے کے بیس پیسے لائبریری شعبے کو ادا کیے جانے چاہیے لیکن 2014 سے حکومت پراپرٹی ٹیکس میں لائبریری کا حصہ متعلقہ شعبے کو فراہم کرنے میں ناکام ہے ۔ تلنگانہ حکومت کی جانب سے کتب خانوں کو جورقومات ادا کی جانی چاہیے اس میں تساہل اور ناکامی کی وجہ سے اس وقت شہر حیدرآباد کی 83 لائبریریز کو ماہانہ صرف پندرہ لاکھ روپے فراہم کیے جا رہے ہیں ،جس کی وجہ سے لائبریریز کے کئی ملازمین کو گذشتہ چند ماہ سے تنخواہیں نہیں دی جا رہی ہیں ۔2014 میں تلنگانہ حکومت نے لائبریریز کے لیے پانچ کروڑ روپے منظور کیے تھے لیکن سنٹرل لائبریری کے لیے صرف 1.13 لاکھ روپے ہی موصول ہوئے ۔
گرنتھالیم کہ سیکریٹری پدما جہ نے لائبریریوں کی صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ حیدرآباد میں اس وقت 83 کتب خانے ہیں اور ان کی نگہداشت کے لئے ماہانہ 15لاکھ روپے فراہم کیے جاتے ہیں جو صرف کتب خانوں کے بنیادی ضروریات جن میں پیپر ،آبی بل اور برقی بل ہی ادا کیا جاسکتا ہے جبکہ کتب خانے کی دیگر اہم ضروریات کی تکمیل کیلئے 50 لاکھ روپے زائد اخراجات برداشت کیے جاتے ہیں ۔2014 میں حکومت تلنگانہ کی جانب سے منظور کیے جانے والے 5 کروڑ روپے پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کثیر رقم کی منظوری کے باوجود شعبہ کتب خانے کو صرف 11.3 لاکھ روپے ہی سنٹرل لائبریریز کو حاصل ہوئے ہیں ۔فنڈ کی کمی کی وجہ سے لائبریری کا رخ کرنے والے طلبہ کو نصابی کتب بھی فراہم نہیں کیے جا سکتے ہیں کیونکہ تلگو اکیڈمی کو بقایاجات کی ادائیگی بھی نہیں ہوئی ۔سٹی سنٹر لائبریری کے سینئر اسسٹنٹ سدھیر نے لائبریریز کے مسائل پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کتب خانے کا مسئلہ طلبہ کو نصابی کتب فراہم کرنے یا تلگو اکیڈمی کو بقایاجات کی ادائیگی تک محدود نہیں ہیں بلکہ ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے میں بھی مسائل درپیش ہیں ۔ یہاں 42 آؤٹ سورسنگ ملازمین ، 88 مستقل ملازمین اور 184 وظیفہ یاب افراد کو فنڈ کی عدم ادائیگی کی وجہ سے رقومات ادا نہیں کی جارہے ہیں جبکہ ملازمین کی تنخواہیں دو یا تین ماہ میں صرف ایک مرتبہ ادا کی جارہی ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملازمین کو نہ صرف تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بلکہ انہیں سرکاری ملازمین کے طور پر شناخت بھی نہیں مل رہی ہے جس سے ان میں ہر قسم کا احساس کمتری بھی بڑھ رہا ہے ۔
فنڈ کی عدم دستیابی کی وجہ سے کتب خانوں میں بنیادی انفراسٹرکچر کافی تکلیف دہ ہے کیونکہ بل کی عدم ادائیگی کی وجہ سے پینے کا پانی ، برقی سربراہی نہ ہونے کے علاوہ کتب خانے میں فرنیچر بھی مطلوبہ تعداد میں دستیاب نہیں ہے ۔ علاوہ ازیں جی ایچ ایم سی کی 54 عمارتیں کتب خانوں کے لیے فراہم کی گئی ہیں لیکن ان میں دیگر دفاتر کو بھی شامل کردیا گیا ہے ، جس میں خاص کر کے ایک کمرے میں کتب خانہ تو دوسرے کمرے میں مونسپل آفس بھی موجود ہوتی ہے ،جس سے نہ صرف عمارت تنگ دامنی کا شکوہ کرتی ہے بلکہ ایک کمرے میں مونسپل آفس کے امور کی تکمیل کے دوران شورشرابے سے دوسرے کمرے میں کتب خانے میں مطالعہ میں مصروف عوام کو شورشرابے سے خلل پیدا ہوتا ہے ۔
تعلیم یافتہ سماج کسی بھی ملک اور ریاست کی ترقی میں بنیادی ضرورت سمجھا جاتا ہے اور علوم کے حصول کے لیے عوامی کتب خانے اہمیت کے حامل ہوتے ہیں لیکن حیدرآباد کے اکثر کتب خانے بنیادی مسائل کی سنگین صورتحال سے دوچار ہیں لہذا حکومت کو شہر حیدرآباد کی لائبریریز کے مسائل کو جلد از جلد حل کرنے کے لئے انقلابی اقدامات کرنے ہونگے۔