دینی و دعوتی اداروں اور علمائے کرام کی کاوشوں کے باعث گذشتہ دہوں میں مسلمانوں میں دینی شعور بہت زیادہ بڑھا ہے۔ہماری مساجد کی تعداد میں گذشتہ تین دہوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آزادی کے بعد عصری علوم کے تئیں مسلمانوں کی رغبت نے انہیں ابنائے وطن کے شانہ بہ شانہ لا کھڑا تو کردیا تھا مگر ان میں دین پر عمل پیرا ہونے کی وہ دلچسپی نہیں تھی جو اب ہے۔ اگرچہ ہمارے آج کے بزرگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے زمانہ میں دینداری زیادہ تھی مگر ہم جائزہ لیں تو 40-50 برس قبل ہماری مساجد میں صرف جمعہ اور رمضان کو ہی مساجد بھری پڑی نظر آتی تھیں مگر آج عام دنوں میں بھی پانچوں اوقات تقریباً ہر مسجد میں دو تین صف مصلی ہوا کرتے ہیں۔ پہلے دور کے مسلمان فقہی و مسلکی اختلافات کے بارے میں بھی زیادہ جانکاری نہیں رکھتے تھے مگر آج کا نوجوان اپنے اپنے مسالک کے نہ صرف بنیادی عقائد کے بارے میں بھرپور جانکاری رکھتا ہے بلکہ وہ ان کا دفاع کرنے کا بھی سلیقہ رکھتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان دنوں نوجوانوں میں عقائد کے بارے میں جو بحث و مباحث ہونے لگے ہیں ویسا ماضی میں کبھی علماء کے مابین بھی نہیں ہوا کرتے تھے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہم میں مسلکی وابستگی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ ہر کوئی مناظر بن بیٹھا ہوا ہے اور دوسرے مسلک کے عقائد کو گمراہ کن اور خلاف اسلام ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اپنے عقیدہ کے دفاع اور مخالفین کے عقیدہ کی کمزوریاں تلاش کرنے میں ہم اس قدر منہمک ہوچکے ہیں کہ ہمارے سامنے یہی کام دین کی خدمت متصور ہونے لگی ہے۔نوجواونوں میں دین کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں تحقیق کا جو جذبہ پروان چڑھا ہے اس کی وجہ سے وہ اپنے اپنے عقیدہ پر زیادہ کاربند ہونے لگے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان میں کسی حد تک دینداری بڑھی ہے۔ مختلف مسالک کے کچھ علمائے کرام نے بھی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے اپنا منہج تبدیل کردیا ہے اوران کی بھی زیادہ تر توجہ ایسے ہی مسائل پر مرکوز ہوتی ہے ، تاہم اس صورتحال کا ایک منفی پہلو یہ سامنے آیا ہے کہ ہم صرف اپنے اپنے حلقوں تک ہی محدود ہوکر رہ گئے ہیں ‘ ہمیں یہ فکر ہی نہیں رہی کہ ہمارے اطراف و اکناف کیا کچھ ہورہا ہے۔ اسلام دشمن طاقتیں کس طرح مسلمانوں کے ایمان پر ڈاکہ ڈالنے لگی ہیں۔
دعوۃ و تبلیغ سے جڑے اداروں اورتنظیموں کی اکثریت بھی شہری علاقوں میں اپنے مراکز و ہیڈکوارٹرس قائم کئے ہوئے ہیں ‘ اگرچہ یہ دیہی علاقوں میں اپنے پروگرامس چلاتے ہیں اور ان کی تشہیر بھی کرتے ہیں مگر ان کامقصد دیہی علاقوں میں دین پھیلانا نہیں بلکہ معطی حضرات اور چندہ دہندگان کو راغب کرتے ہوئے ان سے زیادہ سے زیادہ پیسے بٹورنا ہوتا ہے۔ شہر میں ایسے کئی کارپوریٹ دعوہ سنٹرس ہیں جن کے دفاتر اور ان میں کام کرنے والوں کو دیکھیں تو ایسے لگتا ہے کہ یہ کوئی ملٹی نیشنل کمپنی ہے اور یہاں کام کرنے والے ایم بی اے، ایم سی اے، انجینئرس اور سائنسداں ہیں۔ یہ ادارے سال میں کچھ پروگرامس کرتے ہیں جن پر لاکھوں روپے خرچ کردئیے جاتے ہیں۔ان اداروں کا سالانہ بجٹ اب تو کروڑوں تک پہنچ چکا ہے۔ اسی طرح شہر میں ایک دو دینی مدار س ایسے ہیں جن کے سالانہ اخراجات کروڑ روپے سے تجاوز کرچکے ہیں۔ بعض ادارے تو ایسے ہیں جن کے اسٹیجس پر دو تا دس لاکھ روپے خرچ ہوجاتے ہیں اور یہ ایسے پروگرامس کرتے ہیں جن کا ٹارگٹ وہ مسلمان ہوتے ہیں جو دین کا نہ صرف بہت اچھا شعور رکھتے ہیں بلکہ تلاش کرکے سنتوں پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ ادارے غیر مسلموں میں اسلام پیش کرنے کی سعی کرتے ہیں مگر یہ فراموش کرجاتے ہیں کہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اب بھی مسلمان ہونا باقی ہے، جن کے نام تو مسلمانوں جیسے ہیں ، جو مرجائیں تو مسلمانوں کی طرح دفن کئے جاتے ہیں مگر ان کی زندگی میں اسلام کی ایک جھلک تک دکھائی نہیں دیتی‘ جن کا رہن سہن ، عادات و اطوار بالکل غیر مسلموں جیسے ہیں‘ ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جن کے ناموں میں غیر اسلامی نام بھی شامل ہوچکے ہیں اور وہ اغیار کے عید و تہوار بھی کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ شائد نسلوں سے چلی آرہی غربت کے باعث وہ دین سے اس قدر دور ہوچکے ہیں اور یہ زیادہ دور نہیں بلکہ شہر کے مضافات میں ہی پائے جاتے ہیں اور ہم بھی انہیں بھلائے عرصہ ہوچکا ہے۔ ان بستیوں میں نہ ہی کوئی تبلیغی جماعت جاتی ہے اور نہ ہی کوئی داعی پہنچتا ہے۔ اگر کوئی ان اداروں اور تنظیموں کے ذمہ داروں کی توجہ مبذول کروائے تو ان کا دل رکھنے ایک آدھ مرتبہ ان بستیوں کا رخ کرتے ہیں اور کچھ دنوں تک افسوس و ملال کا اظہار کرتے ہیں اور پھر انہیں فراموش کردیتے ہیں۔
رمضان سے چند دن قبل مجھے ایسے ہی ایک بستی کا دورہ کرنے کا موقع ملا جو شہر سے بڑی مشکل سے 23کیلومیٹر دور ہے جبکہ بارکس صلالہ سے بمشکل 7-8 کیلومیٹر کے فاصلہ پر ہے ۔ بارکس ، صلالہ سے ہوتے ہوئے جہاں کے مسلمانوں میں زبردست دینداری پائی جاتی ہے جب ملا پور پہنچا تو مجھے ایک خوبصورت مسجد بھی دکھائی دی جہاں کبھی ایک قطب شاہی مسجد کھڑی تھی جسے چند برس قبل ایک رئیل اسٹیٹ ڈیولپر نے اپنے پراجکٹ کے لئے منہدم کردیا تھااور مسلمانوں کے زبردست احتجاج پر وہاں دوبارہ یہ مسجد تعمیر کی گئی۔ اس مسجد سے گذرتے ہوئے مجھے وہ تمام واقعات یاد آگئے جب اس مسجد کو منہدم کیا گیاتھا۔ میرے ذہن میں وہ چہرے بھی کوندنے لگے جنہوں نے اس مسجد کو منہدم کرنے والے مسلم ڈیولپرس کی پشت پناہی کی تھی اور ان کے خلاف فوجداری کارروائی کو کالعدم قرار دیا تھا۔ مجھے وقف بورڈ کی اس ضمن میں قراردادمنظور کئے جانے کے پس پردہ کی گئی وہ تمام کارروائیاں بھی یاد آگئیں کہ کس طرح مسجد منہدم کرنے والوں کو ہی دوبارہ مسجد تعمیر کرنے کی اجازت دی گئی اور کس طرح ہائی کورٹ میں سابق سی ای او کے ذریعہ حلف نامہ داخل کروایا گیا۔ اس قبیح فعل پر صحافت کے ایک گوشہ کا مکروہ کردار بھی مجھے یاد آنے لگاکہ کس طرح ابتداء میں مسجد کے منہدم کرنے والوں کے خلاف مہم چلائی گئی اور پھر بعد میں ان کی کس طرح پذیرائی کی گئی۔ میری آنکھوں میں ان چند صحافیوں کے بھی چہرے گھومنے لگے جنہوں نے اس مسجد کے کے انہدام کے خاطیوں کو کلین چٹ دلانے کوشاں تھے۔ مجھے اس وقت کے وزیر اقلیتی بہبود کا بھی رول یاد آگیا جنہوں نے چند ٹکوں کی خاطر مسجد منہدم کرنے والوں کی پشت پناہی کی تھی۔اس مسجد کے اطراف کچھ خوشنما بنگلے بھی مجھے دکھائی دئیے مگر اس وقت بھی یہ مسجد ویراں ہی تھی۔ مسجد کو منہدم کرنے والے انہی لوگوں کو اگر کوئی جمعہ یا رمضان میں دیکھ لیں تو ان کی دینداری کی قسم کھانے لگے۔
انہی خیالوں میں گم میں اس بستی تک جا پہنچا جہاں رہنے والے مسلمانوں کے بارے میں میرے ایک قریبی دوست نے بتایا تھا ۔ وہ میرے ساتھ ہی تھے۔یہ نادر گل سے دو تین کیلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ایک چھوٹا سا قصبہ کرمل گوڑہ ہے، جہاں بمشکل 15-20 مسلم گھرانے بستے ہیں ۔ نادرگل میں بھی اوقاف کی قیمتی زمین موجود ہے جہاں پر اغیار تیزی سے قبضہ کرتے چلے آرہے ہیں ، اس خصوص میں ہمارے ایک اور ساتھی کی درخواست پر معزز ہائی کورٹ نے وقف بورڈ کو واضح ہدایت دی تھی کہ اوقافی جائیداد کی صیانت کے اقدامات کرے۔ کرمل گوڑہ کے مسلمانوں کی اکثریت کا ذریعہ معاش پتھر پھوڑنا ہے۔یہ لوگ دن میں 30-40 پتھر پھوڑ لیتے ہیں جس کے انہیں فی پتھر 5 روپے معاوضہ ملتا ہے۔ اس طرح یہ لوگ ماہانہ 3000-3500 روپے کمالیتے ہیں۔ ان کی کچھ عورتیں زرعی مزدوری کرتی ہیں۔ میں اور میرے ایک اور ساتھی جب اس بستی میں پہنچے تو بستی کا کچھ عجیب سا منظر تھا۔ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ننھے ننھے بچے ایک کچے سے مکان میں فرش پر بچھی شطرنجی پر ایک مولوی کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے۔ ان بچوں کے جسموں پر لٹکے کپڑوں کو دیکھ کر ان کے ماں باپ کی غربت کا اندازہ بخوبی ہونے لگاتھا، جب یہ بچے اپنا مدرسہ ختم کرکے واپس لوٹنے لگے تھے تو کسی کے پیر میں پھٹی پرانی چپل تھی توکسی بچہ کو چپل بھی نصیب نہیں تھی۔میں اس نوجوان مولوی سے بھی بڑا متاثر ہوا جو شہر چھوڑ کر اس سنگلاخ علاقہ میں مسلم بچوں کو دین سکھانے کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں۔ وہ ان غریب بچوں سے بڑے ہی پیار سے پیش آرہے تھے، بچو ں سے ان کا پیار دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ان سبھی بچوں کو اپنا سمجھتے ہیں۔
آج سے ایک دہا قبل اس بستی میں کوئی مولوی نہیں آیا کرتا تھا اور نہ ہی کوئی ان کے بچوں کو قرآن مجید پڑھانے والا تھا۔ یہاں رہنے والوں میں کچھ نوجوان نادرگل جاکر جمعہ ادا کرلیا کرتے تھے۔ وہیں پر ہمارے دوست کی ان نوجوانوں میں سے ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی تھی ، اسی ملاقات میں انہیں اس گاؤں کے بارے میں پتہ چلا تھا۔ دوسرے اتوار کو وہ اس گاؤں میں تھے۔ گاؤ ں کے کچھ مسلم لوگوں سے انہوں نے بات کی اور ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے بعد اس گاؤں میں ایک کچے سے نیم تعمیر مکان کو کرایہ پر حاصل کیا اور اسی میں یہ مدرسہ قائم کیا ۔ یہ کوئی باضابطہ مدرسہ نہیں ہے اور نہ ہی یہاں جماعتوں کا نظم ہے۔ ہمارے اس دوست نے اس گاؤں میں بچوں کو پڑھانے کے لئے ایک مولوی کا بھی انتظام کیا جو شہر سے روزانہ یہاں آکر چار تا چھ گھنٹے گذارتے ہیں اور اس بستی کے مسلم گھرانوں کے بچوں کو اکٹھا کرکے انہیں قرآن مجید اور دین کی بنیادی باتیں سکھاتے ہیں۔ انہی بچوں میں ایک نوجوان بھی ہے جنہوں نے 2012 ء میں دسویں جماعت کامیاب کیا تھا اور جنہیں82 فیصد نشانات بھی آئے تھے مگر ان کی گھریلو حالت نے اس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکے۔ اپنے بڑوں کی طرح یہ نوجوان بھی پتھر پھوڑ کر اپنے گھر والوں کی کفالت کرنے لگا ہے‘ مگر یہ نوجوان بستی کے دوسروں نوجوانوں سے کچھ مختلف ہے۔ یہ نوجوان اپنے اسکول کی تعمیر کے ساتھ ساتھ بستی کے اس مدرسہ میں قرآن کا ناظرہ سیکھتے سیکھتے حفظ بھی کرنے لگا ہے اور اب تک اس نے پندرہ پاروں تک حفظ بھی کرلیا ہے۔ یہ روزانہ قرآن مجید یاد بھی کرتا ہے اور پھر پہاڑوں میں جاکر پتھر بھی پھوڑتا ہے۔شیخ ولی سے تو ہماری ملاقات نہیں ہوسکی چونکہ وہ کسی کام سے گاؤں کے باہر گئے ہوئے تھے البتہ جب ہم پہاڑوں پر جاکر دیکھے تو مئی کی تپتی دھوپ میں ان کے بھائی چٹانوں کے درمیان پتھروں پر لوہے کا ہتھوڑا برساتے ہوئے پسینہ میں شرابور تھے۔ میں بس انہیں دیکھتا ہی رہ گیا کہ اتنی تپش میں وہ کس قدر محنت کررہے ہیں۔
ہمارے یہ دوست تقریباً ایک دہے سے یہ خاموش خدمت انجام دے رہے ہیں مگر ان کے کئی دوستوں کو اس کاعلم بھی نہیں ہے۔ یہ ایک ہی بستی نہیں ہے جہاں وہ اس طرح کے کام کرتے ہیں بلکہ دوسرے قصبوں اور شہر کی ایک دو بستی میں بھی یہ خاموش کرتے آرہے ہیں۔ نہ ہی کسی سے چندہ کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے ان کاموں کی تشہیر کرتے ہیں بلکہ انہوں نے ہمیں اس یقین دہانی پر ہی اس گاؤں کا دورہ کروائے کہ ان کا نام کہیں نہ آئے۔ یہ جب چینائی میں آئی ٹی کمپنی میں کام کیا کرتے تھے تب بھی وہ اپنے ان کاموں کو فراموش نہیں کئے اور جب کبھی حیدرآباد آتے ان بستیوں میں جاتے اور ایسے بچوں کے ساتھ دن گذارکر واپس لوٹ آتے ۔ انہوں نے ایک اور بستی میں لڑکیوں کو قرآن کی تعلیم دلانے ایک معلمہ کا تقرر کر رکھا ہے اور ہفتہ میں ایک مرتبہ ان گاؤں میں جاکر بچوں کی پڑھائی کا جائزہ لیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ شہر سے دور ایسی بستیوں میں کوئی معلم یا مولوی بھی کام کرنے آمادہ نہیں ہوتا ہے چونکہ انہیں معقول معاوضہ نہیں ملتا۔ بس وہی لوگ تیار ہوجاتے ہیں جنہیں اللہ کے ایسے بندوں سے محبت ہوتی ہے اور جن کے دلوں میں تڑپ ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کبھی کبھار کوئی تنظیم یاادارے کے لوگ ایسی بستیوں میں آجاتے ہیں مگر وہ بھی مستقل طور پر ایسی بستیوں میں کام کرنے سے قاصر ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ایسی ہی ایک بستی میں شہر کی ایک تنظیم کے کچھ ذمہ دار آئے تھے مگر اس کے عہدیدار مستقل طور پر اس بستی میں کام کرنے سے اپنی معذوری ظاہر کرکے خاموش ہوگئے۔ انہوں نے بتایا کہ شہر میں بھی ایسی کئی بستیاں ہیں جہاں کے مسلمان دین سے بہت سے دور ہیں۔اس کے برخلاف قادیانی اور عیسائی تنظیموں کے لئے یہ سافٹ ٹارگٹ ہوتی ہیں اور ان کے مبلغین استقامت کے ساتھ اپنے باطل عقائد کو پھیلانے میں مصروف رہتی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ آج سے تین چار برس قبل انہیں فلم نگر کے اطراف و اکناف کا سروے کرنے کا موقع ملا چونکہ انہیں کسی نے بتایا تھا کہ گیانی ذیل سنگھ نگر اور دیگر بستیوں میں جہاں غریب مسلمان بستے ہیں وہاں ، کچھ برقعہ پوش خواتین عیسائیت کی تبلیغ کررہی ہیں اور وہ مسلم گھرانوں میں اردو میں بھی پمفلٹس تقسیم کررہی ہیں۔ انہوں نے وہاں بھی کچھ کام کیا ہے۔
وہ ان غریب لوگوں کی مالی امداد کرتے ہوئے انہیں اپنے دام فریب میں پھانس لیتے ہیں۔ یہ لوگ چونکہ بہت غریب ہوتے ہیں اور دین کافہم نہیں ہوتا ہے اس لئے بہت جلد وہ اثرات قبول کرلیتے ہیں۔ انہوں نے ایک اور انکشاف کیا کہ ان لوگوں کو اب پتہ چل چکا ہے کہ ان کی غربت اور بے بسی کوعالمی منڈی میں بیچا جاتا ہے۔ چندے وصول کرنے والی تنظیمیں اور این جی اوز کے عہدیدار ان لوگوں کے ساتھ اپنی تصویریں کھنچواتے ہیں اور ان کے نام پر پراجکٹ رپورٹس تیار کرکے مخیر حضرات سے رقومات بٹورلیتے ہیں۔ اسی لئے اب ان میں لالچ آگئی ہے اور کوئی صدق دل سے ان میں کام کرنا چاہتا ہے تو ان کو بھی یہ شک کی نگاہوں سے دیکھنے لگتے ہیں ، چونکہ یہ بالکل ہی ناخواندہ ہوتے ہیں اس لئے انہیں قائل کروانا بھی بڑا مشکل ہوتا ہے کہ آپ کے نام کوئی چندہ وصول نہیں کیا جارہا ہے بلکہ جوکچھ بھی کیا جارہا ہے وہ اپنے ذاتی خرچہ پر کیا جارہا ہے۔انہوں نے بتایا کہ نادرگل کے قریب ہی ایک اور قصبہ گاندھی نگر ہے جہاں انہوں نے بچیوں کی تعلیم کے لئے ایک معلمہ کا تقرر کر رکھا ہے، اس معلمہ نے انہیں بتایا کہ جب وہ ایک بچی کے ان کے ہاں پڑھنے آنے میں ناغہ کرنے اور سبق یاد نہ کرنے کی اس کی ماں سے شکایت کی تو اس بچی کی ماں کا جو جواب تھا وہ بہت ہی حیران کن تھا۔ معلمہ نے بتایا کہ بچی کی ماں نے شکایتاً کہا کہ تم لوگوں نے تین سال قبل 15 کیلو چاول دیا تھا اس کے بعد سے کچھ نہیں دیا ، کیا میں نے شکایت کی اور اپنی بچی کو بھیجنا بند کردیا؟ اس سے ان کی غربت اور سوچ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
شہر میں درجنوں تنظیمیں اور ادارے ہیں دعوۃ و تبلیغ کے کاموں سے جڑی ہیں مگر کوئی ایسی تنظیم مجھے نظر نہیں آئی جو ایسی بستیوں میں جاکر مستقل اساس پر کام کرے۔ مجلس تحفظ ختم نبوت ایک ایسی تنظیم ہے جن کے کارکن دیہاتوں میں مشغول رہتے ہیں مگر چونکہ اس تنظیم کے قیام کا اصل مقصد ارتداد کو روکنا ہے اس لئے یہ تنظیم انہی علاقوں پر اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرتی ہے جہاں قادیانیت یا عیسائیت سرگرم ہیں۔ مجھے اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ اس کے بعد کچھ تنظیمیں اور افراد میدان میں کود پڑیں گے اور دردمند مخیر حضرات کی توجہ اس جانب مبذول کرواکر انہیں پیشکش کریں گے کہ اگر آپ مالی تعاون کریں گے تو ایسے کئی قصبوں میں وہ کام کرنے آمادہ ہیں اور اس کے لئے ایک جامع منصوبہ بھی رکھتے ہیں۔ کاش کہ ہم ایسی بستیوں میں دین پھیلانے کی کوشش کرتے جہاں کے رہنے والے دین کی بنیادی باتوں سے بھی ناواقف ہیں چونکہ ایسے افراد میں ارتداد پھیلنے کا زیادہ خدشہ ہے اور ایسا ہوتا ہے تو ہم اللہ کے پاس جوابدہ ہوں گے کہ ہم کیوں غافل رہ گئے۔ دعوۃ و تبلیغ سے جڑے ادارے اپنے اسٹیج کو سجانے پر لاکھوں روپے خرچ کرنے کی بجائے وہی پیسہ اگر ان بستیوں میں خرچ کردیں تو چند ہی برسوں میں ایک انقلابی تبدیلی آئے گی اور ان بستیوں میں مسجدیں بھی تعمیر ہوجائیں گی اور ان میں مصلی بھی پائے جائیں گے۔ صرف غیر مسلموں میں ہی دعوت دین ضروری نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کو بھی دین کی باتیں سکھانا ضروری ہے۔
دین سے دور بستیاں‘ ایمان والوں کی توجہ کی منتظر
- Advertisement -
- Advertisement -