بھگوان سے لگاؤ حیاتیاتی نہیں۔تمام عمر کی خواتین مندر میں داخل ہوسکتی ہیں۔ قبل ازیں مندر کے احاطہ میں حیض کی حامل خواتین جن کی عمریں10 تا 50 برس عمر کے درمیان ہوتی ہیں انہیں داخلہ نہیں دیا جاتا تھا۔
نئی دہلی ۔سپریم کورٹ کے ایک تاریخ ساز فیصلہ میں ریاست کیرالہ کے سبری ملا مندر میں تمام عمر کی خواتین کو داخلہ کی اجازت دے دی گئی۔ملک میں کئی ایسے منادرہیں جن میں صدیوں سے کوئی عورت داخل نہیں ہوئی ہے۔ ان مندروں میں کیرالہ کا مشہور مندر ’سبری ملا‘ بھی شامل تھا۔سپریم کورٹ نے خواتین کے اس مندر میں داخلہ پر برسوں سے عائد پابندی ختم کردی۔ چیف جسٹس آف انڈیا مسٹر جسٹس دیپک مصرا کی زیر قیادت میں پانچ رکنی آئینی بنچ نے اس معاملہ پر سماعت کے اختتام پر یکم اگست کو محفوظ کئے گئے عدالتی فیصلہ کو سنایا ،جس میں عدالت نے مندر میں خواتین کے داخلے پر صدیوں سے عائد پابندی کو ختم کردیا۔چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ عبادت کرنے کا حق تمام عقیدت مندوں کو دیا جاتا ہے اور صنف کی بنیاد پر اس میں کوئی تفریق نہیں کی جاسکتی۔پانچ ججوں میں ایک جج نے فیصلہ سے اختلاف کیا ۔ چیف جسٹس اور مسٹر جسٹس اے ایم کھنویلکر نے چار ججوں کا فیصلہ تحریر کیا۔ قبل ازیں ایسی عورتیں جو 10 تا 50 برس عمر کی ہوتی ہیں اور جنہیں حیض آتا ہے ان پر مندر کے احاطہ میں داخل ہونے پر امتناع تھا۔یہ عقیدہ ہے کہ مندر میں جن کی مورتی ایستادہ ہے وہ ایپا برہمچاری تھے۔ چیف جسٹس نے فیصلہ پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ عورتیں کسی بھی اعتبارسے مردوں سے حقیر نہیں ہیں۔ ایک طرف عورتوں کی دیویوں کے طور پر پوجا کی جاتی ہے لیکن دوسری طرف ان پر تحدیدات عائد ہیں۔ بھگوان سے تعلق کی توضیح حیاتیاتی و جسمانی ساخت کی بنیاد پر نہیں کی جاسکتی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ مقدس جگہ پر عورتوں پر داخلہ پر پابندی جنسی تفریق ہے۔ انہوں نے کہا کہ 50-10 برس کے گروپ کی خواتین کو داخلہ سے روکے رکھنے کی روایت کو لازمی مذہبی روایت تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔عقیدت ، تفریق پر مبنی نہیں ہوسکتی۔ بھکتی میں مساوات پر پدرانہ تصورکو تھوپا نہیں جاسکتا۔ مذہب بنیادی طور پر بھکتی سے مربوط بنیادی طور پر طرز حیات ہے ۔ سبری ملا کی روایت ہندو خواتین کے حقوق کے مغائر ہے۔ جسٹس چندرچوڑ نے کہا کہ خواتین کو روکے رکھنا آزدی، وقار اور مساوات کے حق کی خلاف ورزی ہے۔ خواتین کو محض اس لئے محروم رکھنا کہ انہیں حیض آتا ہے بالکلیہ غیر دستوری ہے۔