حیدرآباد ۔آج سے تقریبا 107 سال قبل سمندر میں ڈوب جانے والے دنیا کے پہلے بڑے بحری جہاز کے ملبے کا موجودہ حالات میں تجزیہ کرنے والی ٹیم نے کہا ہے ٹائی ٹینک کے ملبے تک پلاسٹک پہنچ گیا ہے اور اس کا ملبہ گل کر ٹکڑے ٹکڑے ہونا شروع ہو چکا ہے۔ٹائی ٹینک کے ملبے کو دیکھنے اور اس پر تحقیق کرنے کے لیے ماہرین کی ٹیم آخری مرتبہ 2005 میں زیر سمندر گئی تھی اور اب 14 برس بعد ماہرین کی ایک اور ٹیم جہاز کے ملبے پر تحقیق کے لیے گئی۔
اٹلانٹک پروڈکشن نامی امریکی کمپنی کے چیئرمین کی سرپرستی میں 5 ماہرین کی ٹیم بحر اوقیانوس کے 4 ہزار فٹ نیچے گئی اور ٹائی ٹینک کے ملبے کا جائزہ لیا۔کمپنی کی جانب سےجاری بیان میں کہا گیا ہے کہ نکمین اور ٹھنڈے پانی کی وجہ سے جہاز کا ملبہ آہستہ آہستہ ٹوٹ کر بکھرنے لگا ہے جب کہ ملبے کے اوپر بیکٹیریا، پلاسٹک، سمندری پانی، برف اور نمک کے ملاپ کی تہہ جم چکی ہے۔ماہرین نے کہا ہے کہ پر تعیش ٹائی ٹینک کے کئی حصے انتہائی خستہ حال ہو چکے ہیں جب کہ پلاسٹک کی تھیلیوں سمیت مختلف اقسام کا پلاسٹک بھی جہاز کے ملبے میں پھنس چکا ہے اور اس پلاسٹک نے بھی جہاز کو شدید نقصان پہچانا شروع کردیا ہے۔
یاد رہے کہ دنیا کے سب سے پہلے بڑے اور جدید بحری جہاز کا درجہ رکھنے والے آر ایم ایس ٹائی ٹینک 1912 میں بحر اوقیانوس میں کینیڈا کے قریب برفانی تودے سے ٹکرانے کے بعد تباہ ہوا تھا۔یہ جہاز 882 فٹ لمبا اور 90 فٹ سے زیادہ اونچا تھا اور اس کا وزن 53 ہزار ٹن تھا۔یہ جہاز 2200 سے زائد مسافروں اور عملے کے ساتھ انگلینڈ کے شہر ساؤتمپن سے امریکی شہر نیویارک کی جانب روانہ ہوا تھا اور اس میں زندگی کو پرتعیش بنانے والے ہر سامان کا بندوبست تھا۔
یہ جہاز بحر اوقیانوس میں کینیڈا سے 370 میل کی دوری پر برفانی تودے سے ٹکرانے کے بعد سمندر برد ہوا تھا۔رپورٹس کے مطابق حادثے میں 1500 سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے تھے جب کہ جہاز کے مالک سمیت مجموعی طور 700 افراد زندہ بچ جانے میں کامیاب گئے تھے۔جہاز کے مالک کی جانب سے جہاز کو ڈوبتے اور مسافرین کو مرتے ہوئے دیکھ کر بچ نکلنے پر شدید تنقید کی گئی تھی اور اس کا سماجی بائیکاٹ بھی کیا گیا اور وہ 1937 میں گوشہ تنہائی میں چل بسا۔اس جہاز کے کیپٹن کو ہیرو قرار دیا گیا کیوں کہ انہوں نے آخری دم تک جہاز میں پھنسے مسافروں کو بچایا اور بلاخر وہ بھی سمندر میں ڈوب کر چل بسا۔
اس جہاز کا ملبہ حادثے کے 70 سال بعد 1985 میں امریکی نیوی کے سابق افسر اور ماہر اوشنوگرافی رابرٹ بلارڈ نے اپنی ٹیم کے ہمراہ ڈھونڈ نکالا تھا، ان کے ساتھ فرانسیسی ماہر اوشنوگرافی بھی تھے۔ٹائی ٹینک کے ملبے کو ڈھونڈ نکالنے کے بعد اس پر کئی تحقیقات ہوئیں اور اس پر 1998 میں شہرہ آفاق فلم ٹائی ٹینک بھی بنائی گئی جو ایک دہے تک دنیا کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلم بھی رہی۔