Thursday, April 24, 2025
Homeتازہ ترین خبریںسو سے زیادہ ارکان پارلیمنٹ کو فوجداری مقدمات کاسامنا

سو سے زیادہ ارکان پارلیمنٹ کو فوجداری مقدمات کاسامنا

- Advertisement -
- Advertisement -

نئی دہلی ۔لوک سبھا کے انتخابات کی تیاریاں عروج پر ہیں لیکن 521 موجودہ ارکان پارلیمنٹ میں 83 فیصد ایسے قائدین ہیں جن کے اثاثہ جات میں انہوں نے خود کو کروڑ پتی ظاہر کیا ہے اور ان میں بھی 33 فیصد ایسے قائدین ہے جن کے خلاف فوجداری مقدمات درج ہیں-

انتخابات پر قریبی نظر رکھنے والی تنظیم اے ڈی آر نے ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے داخل کردہ حلف ناموں کو بنیاد بنا کر جو تجزیاتی رپورٹ شائع کی ہے ان میں 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں منتخب ہونے والے 543 رکن پارلیمنٹ میں 521 ارکان نے اپنے حلف ناموں میں شخصی تفصیلات فراہم کی ہیں اور ان میں 430 ایسے ارکان ہیں جن کی جائیدادیں کروڑوں میں ہے ، اس طرح 83 فیصد ارکان پارلیمنٹ کروڑپتی ہیں جن میں بھی 33 فیصد ارکان  کے خلاف فوجداری مقدمات درج ہیں۔

 جن ارکان کے خلاف فوجداری مقدمات درج ہیں ان میں بھی 227 کا تعلق برسراقتدار جماعت بی جے پی سے ہے جبکہ کانگریس کے37 قائدین کے خلاف بھی فوجداری مقدمات درج ہیں۔موجودہ ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے داخل کردہ حلف ناموں میں جو جائیدادیں ظاہر کی گئی ہیں اس میں اوسطاً ہر رکن پارلیمنٹ کے نام 14.72 کروڑ روپے درج ہیں جب کہ 32 ایسے ارکان ہیں جن کی جائیداد 50 کروڑ سے زائد ہے۔

دوسری جانب صرف دو ایسے ارکان پارلیمنٹ ہیں جنکی اثاثہ جات پانچ لاکھ روپیوں سے کم ہے ۔ حلف ناموں میں یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ 33 فیصد قائدین کے خلاف فوجداری مقدمات درج ہیں جن میں بھی 106 ارکان ایسے ہیں جن کے خلاف سنگین نوعیت کے مقدمات درج ہیں، جن میں قتل ، قتل کرنے کی کوشش ،فرقہ وارانہ فسادات ،اغوا اور خواتین کے خلاف کئے جانے والے  جرائم درج ہیں۔ دس قائدین نے اپنے خلاف قتل کے مقدمات کے درج ہونے کا بھی انکشاف کیا ہے اور ان میں چار کا تعلق بی جے پی سے اور فی کس ایک کا تعلق آئی این سی این سی پی ایل جی پی آر جے ڈی سے ہے۔

جن 14 موجودہ ارکان پارلیمنٹ نے اپنے خلاف قتل کی کوشش کا مقدمہ ظاہر کیا ہے ان میں بھی 8 کا تعلق بی جے پی سے ہے جب کہ ایک کا تعلق شیوسینا سے بھی ہے۔ 14 ایسے ارکان پارلیمنٹ بھی ہیں جنہوں نے اپنے خلاف فرقہ وارانہ مقدمات کی تفصیلات فراہم کی ہیں جن میں بھی 10 کا تعلق برسراقتدار بی جے پی سے ہے جبکہ  ٹی آر ایس ، پی ایم کے، ایم آئی ایم اور اے آئی یو ڈی ایف کے فی کس ایک رکن بھی اس فہرست میں شامل ہے۔