نئی دہلی: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے سپریم کورٹ میں عرض کیا ہے کہ مذ ہبی فرقے کے ممبر کے علاوہ کسی بھی فرد کو اس مذ ہبی فرقے کے اعتقاد پر سوال کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔بورڈ نے بی جے پی کے رہنما اور ایڈوکیٹ اشوینی اپادھیائے کی طرف سے دائر کی گئی عوامی تحریک کی مخالفت کرتے ہوئے ایک در خواست دائر کی ہے،جس میں مسلمانوں میں ازدواجی اور نکاح۔حلالہ،طریقوں کو چیلنج کیا گیا ہے۔
محمڈین قانون بنیادی طور پر قر آن مجید اور پیغمبر اسلام ؐکی حدیث پر قائم ہے اور اس طرح یہ طاقت کے صریح قوانین کے دائرہ کار میں نہیں آسکتا،جیسا کہ آئین کے آرٹیکل 13میں بتایا گیا ہے،اور اس لئے اس قانون کی حیثیت کو آئین کے حصہ III پر مبنی چیلنج پر نہیں جانچا جا سکتا۔
بورڈ نے یکساں سول کوڈ کے بارے میں بھی اپنے نظر یات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئین میں آرٹیکل 44،جس میں پورے ملک کے لئے یکساں قانون ہونے کی بات کی گئی تھی ”یہ ریاست کی پالیسی کا صرف سیدھا سیدھا اصول تھا اور یہ قابل عمل نہیں ہے“۔
در خواست کے مطابق،عدالت عظمیٰ 1997 میں ازدواجی تعلقات کے معاملے پر پہلے ہی نمٹ چکی ہے اور اس وقت اس نے ہدایت جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔بورڈ نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ عمل ”قانون نافذ العمل“کے دائرہ کار میں نہیں آسکتا۔
در خواستوں میں کہا گیا ہے کہ مسلم پرسنل لا ایپلیکیشن ایکٹ 1937کی دفعہ 2کو آئین کے آرٹیکل 14, 15, 21 اور25 کی خلاف ورزی قرار دیا جائے،کیونکہ یہ متعدد شادیوں اور نکاح،حلالہ کو تسلیم کرتی ہیدر خواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ”ٹرپل طلاق،آئی پی سی کے سیکشن 498A کے تحت ظلم ہے۔