Wednesday, April 23, 2025
Homeٹرینڈنگسی اے اے امیت شاہ کے گلے کی ہڈی بن گیا

سی اے اے امیت شاہ کے گلے کی ہڈی بن گیا

- Advertisement -
- Advertisement -

نئی دہلی ۔ شہریت ترمیم قانون کے نفاذ اور اسکے بعد عوام کے احتجاج کی وجہ سے بی جے پی کو ہزیمت ہورہی ہے  اور ایسی ہزیمت کا اندازہ شاید امیت شاہ کے وہم وگمان میں بھی نہیں رہا ہوگا کہ شہریت والے اپنے قانون کی دفاع میں انہیں اپنے محفوظے تک کو میدان میں اتارنا پڑے گا اور ایک ایسے آدمی سے بھی انہیں مدد لینی پڑے گی جو پارٹی میں ان کے سب سے بڑے مخالف تصور کیے جاتے ہیں یعنی کہ نتن گڈکری سے بھی مدد لینے کا وقت آگیا ہے۔امیت شاہ کےلئے اس سے زیادہ بے عزتی کیا ہوگی کے اپنی ہی جماعت میں موجود اپنے حریف کی مدد لینی پڑرہی ہے۔

 گزشتہ چند  دنوں سے پورے ملک میں شہریت ترمیم قانون کے خلاف ہورہے احتجاج کا جواب جب  ان کے  حمایتی میڈیا سے نہیں بن پڑا تو مجبور ہوکر  اے بی وی پی کو میدان میں اتارا گیا ہے اور اس کے ذریعے جلسے جلوس کرواکر لوگوں کو یہ باور کروانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ سی اے اے اور این آر سی ملک کی ضرورت ہے اور لوگ اس قانون کو پسند کررہے ہیں۔ اے بی وی پی نے دہلی، ممبئی، پونے ،شولاپوروناگپور جیسے شہروں کے ساتھ ملک کے دیگر کچھ شہر وں میں جلوس نکال کر سی اے اے کی حمایت کی ہے اور ناگپور میں نکلالے گئے اسی طر ح کے ایک جلوس میں نتن گڈکری بھی شریک ہوئے ۔ ان جلوسوں میں سے ایک جلوس جس میں بی جے پی کا ایک سپاہی ایک اسٹول پر کھڑے ہوکر مودی وامیت شاہ جی کے گن گاتا ہوا نظر آیا اور اسے گھیرے دو درجن تک لوگ اس کے ہر جملے پر بھارت ماتا کی جئے جئے کار لگارہے تھے۔

اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد یعنی کہ اے بی وی پی سنگھ اور بی جے پی کا ایسا ہراول دستہ ہے جس کا استعمال ہمیشہ محفوظے کے طور پر کیا جاتا ہے اور ایسے وقت میں کیا جاتا ہے جب اس کے بغیر کوئی چارہ  نہ ہو۔ پہلے یہ اہمیت  وی ایچ پی اور بجرنگ دل کو حاصل  تھی لیکن پروین توگاڑیا کی بغاوت کے بعد اس کی دھار ذرا کم ہوگئی ہے۔ اس لئے جے این یو سے بی ایچ یو تک اور بنگال سے لے کر کیرالاتک ہرمشکل محاذ پر اسی اے بی وی پی کو میدا ن میں اتارا جاتا ہے جو خاص طور سے نوجوانوں کے درمیان بی جے پی کے موقف کی دفاع کرتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس دوران وہ خود اپنی دفاع کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔اے بی وی پی کے ان جلسوں کے دوران بھی کچھ مقامات سے خبر آئی ہے کہ کچھ لوگ عین پروگرام کے دوران اس کالے قانون کے خلاف نعرے بازی کرنے لگے۔

کہاجاتا ہے کہ جب تکبر حد سے بڑھ جاتا ہے تو قدرت عقل پر مہرلگادیتی ہےلیکن معلوم نہیں کیوں بی جے پی کا اب ہرلیڈر اسی کا مظاہرہ کرنے لگا ہے۔ مہاراشٹر میں 105سیٹیں لے کر اپوزیشن میں بیٹھی  بی جے پی ابھی تک خودکو یہی نہیں سمجھاپارہی ہے کہ وہ حکومت میں نہیں ہے۔ ناگپور میں اسمبلی کے سرمائی اجلاس کے دوران چیف منسٹر ادھو ٹھاکرے نے بی جے پی کی حرکتوں اور کرتوتوں کو سرِ عام اجاگر کیا تو گویا بی جے پی کے تمام لیڈروں کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ کسی سے یہ بن نہ پڑرہا تھا کہ ان کی باتوں کا جواب دے۔ ریاست کے سب سے بڑے سورما دیوندر فڈنویس کی حالت تو یہ تھی جیسے کوئی بچہ چوری کرتے ہوئے پکڑ اگیا ہو لیکن شاید بی جے پی کی ہزیمتوں میں سے ایک ہزیمت کا قدرت نے ازخود یہ انتظام کردیا ہے کہ اس کو انہیں لوگوں سے جواب دلائے جو اس کی اندھیری رات کے ساتھی تھے۔

اے بی وی پی یا دیگر سنگھی تنظیمیں جو جلوس نکال رہی ہیں، اسے دیکھ کر بی جے پی اور خاص طور سے امیت شاہ جی کی بیچارگی پر ترس آرہا ہے۔ اے بی وی پی کے لوگ سی اے اے اور این آر سی کے نفاذ کا مطالبہ کررہے ہیں اور اسے ملک کے لئے انتہائی ضروری قرار دے رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس چیز کا وہ مطالبہ کررہے ہیں، اسے حکومت نے کب لاگو کرنے سے انکار کیا؟ وہ تو انہیں نافذ کرنا ہی چاہتی ہے جس کے لئے اس نے تمام مخالفت کے باوجود منظور کروایا ہے۔ اے بی وی پی یہ جلوس سی اے اے کی حمایت میں نکال رہی ہے لیکن اس سے تو بی جے پی اور امیت شاہ کی رہی سہی مٹی بھی پلید ہورہی ہے؟ یہ جلسے وجلوس بی جے پی کی مرکزی حکومت کی ارتھی کی طرح معلوم ہورہی ہیں؟ ایسا اس لئے ہورہا ہے کہ پورا ملک اس حقیقت سے واقف ہوچکا ہے کہ چانکیہ جی اپنی عزت بچانے کے لئے کوئی بھی ہتکھنڈہ استعمال کرسکتے ہیں اورسو وہ وہی کررہے ہیں۔

سی اے اے اوراین آر سی کی حمایت میں نکلنے والے یہ جلوس اس بات کا اعلان ہیں کہ بی جے پی اور خاص طور سے امیت شاہ اپنی قوتِ ارادی بھی کھوچکے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو جس طمطراق کے ساتھ انہوں نے پارلیمنٹ وراجیہ سبھا سے اس قانون کو منظور کروایا تھا، اسی طریقے سے اسے نافذ بھی کردیتے۔ لیکن اول تو52فیصد سے زائد آبادی والی ریاستوں نے اسے اپنے یہاں نافذکرنے سے انکار کردیا ہے اور دوسرے یہ کہ وہ جن ریاستوں میں نافذ کرنا چاہتے ہیں، وہاں سے بھی اس کے خلاف آوازیں بلند ہونی شروع ہوگئی ہیں۔ اس لئے وہ اب یہ نہیں سمجھ پارہے ہیں کہ اسے نافذ کریں تو کہاں کریں۔

شہریت ترمیم قانون گوکہ این آر سی میں جگہ نہ پانے والے ہندووں ودیگر مذاہب کے لوگوں کو(مسلمانوں کو چھوڑ کر) شہریت دینے کے لئے لایا گیا ہے، لیکن اس کا ایک اور مقصد ملک کو مذہب کی بنیادپر تقسیم کرنا بھی تھا۔ معلوم نہیں اس قانون کے تحت دیگر مذاہب کے ہمارے کتنے بھائیوںکو شہریت ملے گی، لیکن اس قانون کوامیت شاہ جی نے جس دوسرے مقصد کے لیے لایا تھا، اس کے بارے میں انہیں افسوس کے ساتھ یہ اطلاع دی جانی چاہئے کہ مسٹر امیت شاہ آپ اپنے مقصد میں مکمل طورپر ناکام ہوچکے ہیں۔ آپ کی کوشش یہ تھی کہ اس کے ذریعے ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان منافرت بڑھا کر آپ اپنی پچاس سالہ راج کرنے کا خواب شرمندہ تعیبر کرنا چاہتے ہیں لیکن اس قانون نے ملک کے ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان بھائی چارے کو مزید بڑھا دیا ہے۔ ملک کے 70 سے زائد شہروں میں ہونے والے سی اے اے مخالف احتجاجات میں مسلمانوں سے زیادہ ہندووبھائیوں نے شرکت کرکے امیت شاہ کو یہ پیغام دیدیا ہے کہ تفریق کے جس مقصدکو وہ حاصل کرنا چاہتے تھے، اس میں وہ بری طرح ناکام ہوگئے ہیں۔

یوں بھی جس پارٹی کا ہدف پچاس سال تک حکومت کرنے کا ہو اس کا اس مقام تک پہونچنا فطری بھی ہوتا ہے۔ سو بی جے پی کے ساتھ ایسا ہی کچھ ہوا کہ اس تکبر اسے ہزیمت درہزیمت سے دوچار کیے جارہا ہے اور اس کے لیڈران بیچارے اس ہزیمت کو بھی اپنی کامیابی قرار دیتے نہیں تھک رہے ہیں۔کوکا کولا یا کوئی اور سافٹ ڈرنک پی کر آنے والی ڈکار روکنے کی حالت سے تو آپ واقف ہی ہونگے۔ آج کل بالکل یہی کیفیت ہمارے وزیرداخلہ امیت شاہ جی کا ہے۔ ملک بھر میں ہونے والے ان کے شہریت ترمیم قانون کے خلاف احتجاج سے ان کا ڈکار بس آنا ہی چاہتا ہے کہ وہ زور لگاکر اس پر قابو پانے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ چاہتے کہ لوگوں کو اندازہ تک نہ ہو کہ ان کا پیٹ پھول رہا ہے، آنکھیں سرخ ہورہی ہیں اور نتھنے پھڑک رہے ہیں، مگر جو لوگ اس کیفیت سے گزر چکے ہوتے ہیں وہ اس بات کواچھی طرح جانتے ہیں کہ اس کیفیت کو بہت زیادہ دیر تک دبایا نہیں جاسکتا۔