حیدرآباد۔ صدر مجلس اتحاد المسلمین و رکن لوک سبھا حیدرآباد بیرسٹر اسد الدین اویسی نے آج کہا کہ حکومت یہ تاثر دینے کی کوشش کررہی ہے کہ طلاق بدعۃ (بیک وقت طلاق ثلاثہ) مسلم خواتین کو عدل دلاتا ہے جبکہ حقیقت اس کے خلاف ہے ۔ اس آرڈیننس کے نفاذ کے بعد سے مسلم خواتین کی زندگی اجیرن بن جائے گی۔ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے آج دارالسلام میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس آڑڈیننس کی رو سے شواہد کی فراہمی شکایت کنندہ خاتون کے سپرد کی گئی ہے جو اس کے لئے نہایت ہی مشکل ہے۔ اسی طرح اس آرڈیننس کے مطابق طلاق دینے والا شوہر، اپنی مطلقہ بیوی اور بچوں کے لئے نان و نفقہ ادا کرنے کا پابند ہوگا۔ انہوں نے استفسار کیا کہ جب کسی فرد کو تین برس کے لئے جیل کی سزاء سنادی جاتی ہے تو وہ کیسے جیل میں رہتے ہوئے مطلقہ بیوی اور بچوں کے مصارف ادا کرنے کا مکلف ہوگا؟ اور جب وہ شخص تین سال کی سزاء بھگت کر جیل سے باہر آئے گا تو کیا یہ خاتون اس کا استقبال کرپائے گی اور وہ کیا اسے قبول کرلے گا ؟ جیل کی سزاء ختم ہونے کے بعد کیا یہ دونوں ایک خوشحال زندگی بسر نہیں کرپائیں گے؟ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کو واقعی ایسی مسلم خواتین سے ہمدردی ہے تو اسے چاہئے کہ ایسی خواتین کے روزمرہ کے اخراجات کی پابجائی سرکاری خزانہ سے کرے اور اس کے لئے ابتداء میں 500 کروڑ روپے کا فنڈ منظور کرے۔ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے کہا کہ2011 کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 24 لاکھ خواتین ایسی ہیں جن کے شوہر نے نہ ہی طلاق دی اور نہ ہی ان کی کفالت کی ذمہ داری برداشت کی جارہی ہے۔ ان خواتین میں 22 لاکھ خواتین غیر مسلم ہیں۔ حکومت اتنی کثیر خواتین کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کیوں نہیں کررہی ہے ۔ ان کے لئے کچھ کیوں نہیں کرتی؟ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے کہا کہ غیر فطری جنسی افعال اور بدکاری جو اب تک تعزیری جرائم تھے ، سپریم کورٹ نے انہیں غیر تعزیری قرار دیتے ہوئے جائز قرار دے دیا ہے اور نکاح جو اسلام میں ایک معاہدہ ہے جو دیوانی نوعیت کا حامل ہوتا ہے اس معاملہ میں تعزیری سزاء تجویز کی جارہی ہے۔ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم اپنی بیوی کو چھوڑدیتا ہے تو اس کو ایک سال کی سزاء ہے اور اب وہی فعل کوئی مسلم کرتا ہے تو اس کے لئے تین سال کی سزاء مقرر کی گئی ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ ایک جیسے جرم کے لئے سزاء میں امتیاز کیوں برتا گیا ہے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں یہ وضاحت کی کہ طلاق بدعۃ پر مسلم خواتین عدالت عظمیٰ سے رجوع نہیں ہوئی بلکہ عدالت عظمی کے سابق ججوں نے جو ایک ہندؤ لڑکی کے اپنے والدین کی جائیدادوں میں اس کے حصہ کے لئے دائر کردہ درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے یہ کہا تھا کہ مسلم خواتین کے ساتھ بھی ناانصافی ہورہی ہے اور ہم اس کو مفاد عامہ کی درخواست متصور کرتے ہوئے اس کی سماعت کریں گے اور پھر کچھ این جی اوز اور کچھ مسلم خواتین نے عدالت سے رجوع ہوئے۔ یہ وہی جج صاحبان تھے جنہوں نے درج فہرست اوقوام و درج فہرست قبائیل کے خلاف مظالم کی روک تھام کے قانون پر فیصلہ دیا تھا۔ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے کہا کہ دراصل مودی حکومت سنگین عوامی مسائل جیسے کرپشن، مہنگائی وغیرہ سے عوام کی توجہ ہٹانے طلاق ثلاثہ کے مسئلہ کو استعمال کررہی ہے۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ دستور میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ ایسے قوانین جو پہلے سے موجود ہیں اور دستور کے خلاف نہیں ہوں گے وہ برقرار رہیں گے۔ شریعت اپلیکیشن ایکٹ 1937 کو بھی اسی لئے برقرار رکھا گیا تھا اور قانون کے تحت یہ طمانیت دی گئی کہ مسلمانوں کے عائلی 10 مسائل کی جن میں نکاح اور طلاق بھی شامل ہیں ، یکسوئی شرعی احکام کے مطابق ہوگی۔ انہو ں نے کہا کہ چور دروازہ کے ذریعہ یہ آرڈیننس منظور کیا گیا ہے ۔ جب اس خصوص میں بل پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تو اپوزیشن پارٹیوں نے اس پر اعتراض کیا تھا اور اس کا جائزہ لینے کیلئے سلیکٹ کمیٹی سے رجوع کرنے کی سفارش کی تھی۔ انہوں نے کہاکہ سلیکٹ کمیٹی سے رجوع کرنے کی صورت میں بل کے بارے میں آراء پیش کرنے کی مسلمانوں کو سہولت حاصل ہوتی تھی مگر آرڈیننس کی منظوری سے قبل مودی حکومت نے مسلمانوں کے علماء و دانشوروں سے مشاورت کرنا مناسب نہیں سمجھا حتیٰ کہ مسلم خواتین کی کسی انجمن سے بھی حکومت نے مشاورت نہیں کی۔ جناب رحیم الدین انصاری رکن مسلم پرسنل لاء بور ڈنے بتایا کہ بورڈ نے آرڈیننس کے خلاف کل شام ایک جلسہ عام دارالسلام گراؤنڈ پر رکھا ہے جس سے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذمہ دار ، علماء ، مشائخین اور اکابر خطاب کریں گے۔