نئی دہلی ۔ راجیہ سبھا رکن بننے کے بعد ہندوستان کے سابق چیف جسٹس رنجن گگوئی عدلیہ کے اندر موجود بدعنوانی کے تعلق سے بیان دیا ہے۔ انہوں نے واضح لفظوں میں کہا ہے کہ نصف درجن لوگوں کا ایک گروہ ہے جو ججوں کو تاوان دیتا ہے۔ نصف درجن لوگوں کی یہ ایک ایسی لابی ہے جس کا جب تک گلا نہیں گھونٹا جائے گا عدلیہ کی آزادی ممکن نہیں ہے۔
سابق چیف جسٹس رنجن گگوئی نے حالانکہ نصف درجن لوگوں کے گروپ کا اثر عدلیہ پر تو ظاہرکردیا لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ نصف درجن لوگ کون ہیں۔ ہندی نیوز پورٹل جن ستّا پر شائع خبر کے مطابق رنجن گگوئی نے اپنے بیان میں کہا کہ عدلیہ کی آزادی کا مطلب ہے کہ ایسی لابی کی گرفت کو ختم کیا جائے۔ جب تک اس لابی کو توڑا نہیں جائے گا، عدلیہ آزاد نہیں ہو سکتی۔ مزیدکہا کہ اگر کوئی مقدمہ ان کے من مطابق نہیں چلتا ہے تو وہ تاوان دے کر مقدمہ کو وکوا دیتے ہیں۔ وہ ججوںکوہر ممکن طریقے سے متاثرکرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہندوستان کے سابق چیف جسٹس رنجن گگوئی کا یہ بیان ان لوگوں کی بات کو مضبوطی عطاکرتا ہے جو اکثر عدلیہ میں بدعنوانی کی بات کرتے ہیں اور عدالتوں کے فیصلوں کو سیاست سے متاثر بھی بتاتے رہے ہیں۔ مثلاً رافیل اور ایودھیا معاملے پر سنائے گئے فیصلے کو بھی پرشانت بھوشن جیسے معروف وکیل نے کٹہرے میںکھڑاکیا ہے اور اس کے خلاف آواز بھی اٹھائی ہے۔ اس لیے سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا رنجن گگوئی بھی کبھی اس لابی کی زد میں آ ئے؟ حالانکہ رنجن گگوئی اس بات کو سرے سے خارج کر دیا کہ رافیل اور ایودھیا معاملہ پر فیصلہ انہوں نے کسی دباو ¿ میں سنایا۔ انہوں نے کہا کہ رافیل اور ایودھیا پر فیصلہ اتفاق رائے سے سنایا گیا فیصلہ تھا اوراگر ان فیصلوں پر الزام لگائے جائیں گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ان دو فیصلوں میں شامل سبھی ججوں پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔
رنجن گگوئی نے اس طرح کے الزامات کو بھی یکسر مستردکر دیا جس میں کہا گیا تھا کہ رافیل اورایودھیا معاملہ پر فیصلہ حکومت کے حق میں سنائے جانے کی وجہ سے انھیں راجیہ سبھا کی رکنیت ملی۔ اس گمان پر انہوں نے کہا کہ راجیہ سبھا میں نامزدگی کسی طرح کا احساس یا تحفہ نہیں ہے۔ اس طرح کی بات کرکے مجھے بدنام کیاگیا کیونکہ میں نے اس لابی کو للکارا ہے جو عدلیہ کی آزادی کے لیے خطرہ ہے۔