Monday, June 9, 2025
Homeبین الاقوامیعمرہ پرعارضی پابندی ،سعودی حکومت کا درست فیصلہ

عمرہ پرعارضی پابندی ،سعودی حکومت کا درست فیصلہ

- Advertisement -
- Advertisement -

ریاض ۔ کرونا وائرس نے اس وقت ساری دنیا کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے ۔ اس مہلک وائرس کی وجہ سے جہاں کئی ممالک کے جانی و مالی نقصانات برداشت کرنے پڑرہیں وہیں ان ممالک کو بھی ایک خدشہ ہے نہ جانے کب ان کے علاقوں میں اس مہلک اور وبائی مرض کا مریض نکل آئے اور دیکھتے ہیں دیکھتے ان کا ملک بھی اس مہلک مرض کی لیپٹ میں آجائے ۔

کرونا وائرس  کے چین سے شروع ہوکر پڑوسی ممالک ایران ،پاکستان اور خلیجی ممالک میں کویت ،عمان کے علاوہ ایشائی ممالک ملیشیا،انڈونشیا،جاپان اور شمالی و جنوبی کوریا میں پھیلنے کے ساتھ ہی عوام میں ایک بے چینی پھیلنے لگی کے اس کی روک تھام کے لئے کیا کیا جائے  لیکن سب سے زیادہ بحث تو سوشل میڈیا پر اس وقت دیکھنے کو ملی جب سعودی عرب نے اس وائرس کی وجہ سے عمرہ اور مسجد نبوی ﷺ کی زیارت پر عارضی پابندی عائد کردی۔ہندوستان کے صارفین کی ایک بڑی تعداد نے اسے ایک مایوس کن خبر قرار دینے لگے جبکہ پاکستانی عوام نے بھی گزشتہ دنیا ان کے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے چین میں پھنسے طلبہ کو ملک واپس نہ لانے کا فیصلہ کیا تو ایک واویلا مچایا گیا تھا ۔

کورونا وائرس ایک وبائی مرض ہے اور وبائی مرض سے محفوظ رہنے کے ضمن میں شرعیت نے ہماری واضح رہنمائی کی ہے اور حدیث نبوی ﷺ کے مفہم اور اس احکامات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کسی مقام وبائی مرض کے پھوٹنے کی صورت میں یہ ہدایات دی گئی ہیں کہ جہاں یہ مرض پھوٹا ہے وہاں کے لوگ اپنا مقام چھوڑ کرنقل مکانی نہ کریں جبکہ دیگر محفوظ مقامات کے لوگ وبائی مرض سے متاثرہ علاقہ کا دورہ نہ کریں ۔

شرعی احکامات میں یہ حکمت عملی پوشیدہ ہے کہ جو لوگ متاثرہ علاقے میں موجود ہیں اگر وہ وہاں سے محفوظ مقام پر نقل مکانی کرتے ہیں تو خدشات ہیں کہ ان کے ساتھ وہ مرض محفوظ مقامات کو بھی اپنی لیپٹ میں لے لے اور جو افراد محفوظ مقامات پر ہیں اگر وہ متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتے ہیں تو ممکن ہے کہ وہ بھی اس مرض میں مبتلا ہوجائیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے فیصلے سے سعودی عرب کے فیصلے پر جن صارفین نے تنقید کا ہتھیار اٹھایا ہے انہیں شاید اس شرعی احکامات اور اسکی حکمت عملیوں کاعلم نہیں ہے ۔دوسری جانب جو لوگ شرعی احکامات اور سائنٹفیک حقائق سے واقف ہیں ،انہوں نے عمران خان اور سعودی عرب کے فیصلوں کی ستائش کی ہے ۔

”حضرت سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم کسی علاقے میں طاعون کے بارے میں سنو تو اس میں نہ جاؤ اور اگر کسی علاقے میں طاعون پھیل جائے اور تم اس میں ہو تو اس سے نہ نکلو۔”

اس حدیث کو بخاری اور مسلم، دونوں کی تصحیح حاصل ہے۔

اب یہاں شرعی احکامات اور رہنمائی میں طاعون کا تذکرہ مل رہا ہے جبکہ اس وقت ساری دنیا کورونا وائرس سے پریشان ہے تو اس کی وضاحت میں مفتی طارق مسعود صاحب کے محتصر بیان نے کئی سوالات کے جوابات فراہم کردئے ہیں کہ یہ احکامات وبائی مرض کےلئے ہی چاہے وہ ماضی کے طاعون کے ہوں یا پھراس وقت کے کورونا وائرس کے ہوں یا پھر مستقبل میں کوئی اور وائرس یا وبائی مرض ہو سب کےلئے رہنمائی کردی گئی ہے۔

یاد رہے کہ اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی، عرب پارلیمنٹ، جی سی سی سمیت مختلف اداروں اور ممتاز شخصیات نے عمرہ، زیارت اور سیاحت پر سعودی عرب کی پابندی کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی قیادت نے یہ فیصلہ زائرین کی سلامتی کی خاطر کیا ہے۔

سعودی عرب نے 27 فروری کو کورونا وائرس کے پھیلاؤکے خدشے کے باعث عمرے یا مسجد نبویﷺ کی زیارت کے لیے آنے والے افراد کا مملکت میں داخلہ عارضی طور پر معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔  اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) سے اپنے بیان میں کہا کہ  وہ زائرین، مقامی شہریوں اور یہاں مقیم  غیر ملکیوں کی سلامتی کے لیے انتہائی حفاظتی تدبیر کے طور پر عمرہ، زیارت اور سیاحت پر پابندی کے سعودی فیصلے کو معقول اور مناسب سمجھتی ہے۔ وہ اس احتیاطی تدبیر کی تائید و حمایت کرتی ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کا یہ فیصلہ صحت کے حوالے سے عالمی اداروں اور تنظیموں کے مقرر کردہ معیار کے عین مطابق ہے۔

عمرہ ویزہ پر آنے والوں کے لیے سعودی عرب کی پابندی نئی نہیں ہے، اس سے قبل ایبولا کی وبا کے پیش نظر کانگو سمیت کئی ملکوں کے زائرین پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔اقوام متحدہ کی عہدیدار ڈاکٹر سلایا نویا کے بموجب  دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جو سعودی عرب کی طرح حج موسم میں انسانوں کے جم غفیر کو نہایت مربوط شکل میں اعلیٰ معیار کے ساتھ منظم کرتا ہو۔سعودی عرب یہ کام ہر سال کر رہا ہے۔ جنوبی افریقہ نے ورلڈ کپ کی میزبانی کے دوران سعودی عرب کے اسی تجربے سے فائدہ اٹھایا تھا۔

سعودی خبررساں ادارے کے مطابق عمرہ زائرین کے سعودی عرب میں داخلے پر پابندی کے حوالے سے سعودی عرب سمیت مختلف ممالک کے علما نے واضح کیا ہے کہ یہ زائرین کی سلامتی اور حفظان صحت کے حوالے سے ضروری احتیاطی تدبیر ہے، اس کی تائید کی جاتی ہے۔

پابندی عائد کیے جانے کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ عمرہ  اور زیارت پر آنے والوں کو کورونا وائرس سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جو لوگ عمرہ یا زیارت پر سعودی عرب آتے ہیں وہ مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام اور مدینہ منورہ میں مسجد نبویﷺ میں حاضری دیتے ہیں۔ان دونوں مقامات پر دنیا بھر کے ملکوں سے آنے والے زائرین کثیر تعداد میں جمع ہوتے ہیں۔

کورونا وائرس سے متاثر بعض افراد کو خود پتہ نہیں ہوتا کہ وہ اس مرض میں مبتلا ہیں، ایسے میں خدشہ ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔سعودی عرب نے مذکورہ پابندی اسی تناظر میں لگائی ہے تاکہ زائرین کی سلامتی یقینی ہو سکے۔سعودی حکام بار بار اعلان کر چکے ہیں کہ ابھی تک مملکت میں کورونا وائرس کا کوئی مریض ریکارڈ پر نہیں آیا تاہم احتیاطی تدبیر کا تقاضا ہے کہ عمرہ موسم میں دنیا بھر سے آنے والے زائرین کے ذریعے ممکنہ طور پر کورونا وائرس کی منتقلی کا سدباب کیا جائے۔سعودی حکومت اور عوام زائرین کی سلامتی کو اپنی بھرپور ذمہ داری سمجھتے ہیں وہ زائرین کو اس آفت میں مبتلا ہونے سے بچانے کے لیے جملہ اقدامات کو ضروری قرار دے رہے ہیں۔

الشرق الاوسط کے مطابق عرب وزرائے صحت آئندہ ماہ قاہرہ میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے ضروری اقدامات کا فیصلہ کرنے کے لیے خصوصی اجلاس کریں گے۔مصر کے وزیر اوقاف ڈاکٹر محمد مختار جمعہ نے کہا کہ یہ فیصلہ نقصان سے بچاو اور زائرین کے مفاد کی خاطر کیا گیا ہے۔اسکینڈی نیویا کونسل کے چیئرمین حسین الداودی نے کہا کہ سعودی حکام نے یہ فیصلہ سب کے مفاد میں کیا ہے۔ اس پر وہ ہم سب کے شکریہ کے مستحق ہیں۔