Monday, June 9, 2025
Homeٹرینڈنگمحمود علی کے متنازعہ سوال پرعوام کے کئی اور سوالات

محمود علی کے متنازعہ سوال پرعوام کے کئی اور سوالات

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد۔ ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد میں ایک ڈاکٹر کے قتل اور اجتماعی عصمت ریزی کے معاملے میں ریاستی وزیر محمود علی کے متنازعہ سوال پر کئی سوال اٹھ رہے ہیں۔ تلنگانہ ریاست کے وزیر داخلہ محمود علی نے اس معاملے پر متنازعہ بیان دیتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ڈاکٹر تھی، وہ پڑھی لکھی تھی، اس نے پہلے اپنی بہن کوکیوں فون کیا؟ اس کو 100 نمبر پر پہلے فون کرنا چاہیے تھا۔

محمود علی کے اس متنازعہ سوال پر عوام خاص کر حیدرآبادی شہریوں نے کئی سوالات کی بوچھارکردی ہے ۔ سوشل میڈیا پروزیر داخلہ محمود علی کے متنازعہ سوال پر صارفین نے جو تبادلہ خیال کیا ہے اس میں ایک سوال سب کو بے چین کررہا ہے وہ یہ کہ جیسا کہ محمود علی نے کہا کہ متاثرہ خاتون جس نے پولیس کو فون کرنے کی بجائے اپنی بہن کوکیوں فون کیا؟ جس پر عوام کا موقف ہے کیا عوام پولیس پر بھروسہ کرتی ہے؟ کیونکہ اکثریت کا ماننا ہے کہ مشکل وقت یا ناگہانی صورت حال کے موقع پر عوام پولیس سے پہلے اپنے افراد خاندان کو فون کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ حالانکہ ڈاکٹر کے اس معاملے بھی اگر متاثرہ خاتون بہن کے ساتھ پولیس کا نمبر 100 ڈائیل کرتی تو پوٹرولنگ پر موجود قریبی گاڑی خاتون کو بہن سے پہلے مدد فراہم کرسکتی تھی اور شاید اس واقعہ کی صورت حال اس وقت کچھ اور ہوتی ۔

 سب ہی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ خاتون کو بہن اور افراد خاندان سے پہلے پولیس کی مدد مل سکتی تھی لیکن شاید پولیس ہنوز عوام کا اعتماد کو اس حد تک حاصل کرنے میں ناکام ہے جہاں لوگ مصیبت اور پریشانی کے موقع پر افراد خاندان سے پہلے پولیس کو فون کرنے کو ترجیح دیں۔ دوسرا سوال یہ تھا کہ حکومت کی جانب سے جو بلند وبانگ دعوئے خواتین کی حفاظت کے متعلق کئے جاتے ہیں وہ حقیقیت میں کیا ہیں کہ رات کے وقت سفر کرنے والی خواتین محفوظ ہیں؟ جبکہ ایک اعلی تعلیم یافتہ خاتون کا یہ حشر ہوا ہے تو پھر مضافاتی علاقوں میں محنت مزدوری کرنے والی غریب خواتین کے ساتھ کیا معاملہ پیش آسکتا ہے وہ بھی قابل غور ہے۔ ایک اور سوال یہ بھی پیدا ہونے لگا ہے کہ جوخواتین کسی پیشہ سے وابستہ ہیں اور انہیں راتوں میں مجبوری کے تحت سفر کرنا پڑتا ہے تو انہیں ناگہانی اور ہنگامی حالات سے نمٹنے میں حکومت اور پولیس کی جانب سے فراہم کی جانے والی مدد اور سہولیات کے ضمن میں شعور بیداری کیوں پیدا نہیں کی جاتی ؟ عوام کے پاس اور کئی سوالات ہیں جن کے شاید پولیس اور حکومت کے پاس کوئی جوابات نہیں ہیں۔

یاد رہے کہ شاد نگر قصبے میں جمعرات کی رات ایک نوجوان ویٹر نری ڈاکٹرکونامعلوم افراد نے قتل کردیا،جبکہ اس کی جلی ہوئی لاش ملی۔رنگا ریڈی ضلع کے شاد نگر قصبے کے قریب چٹن پلی پل سے پرینکا ریڈی نامی خاتون ڈاکٹر کی لاش ملی۔

پرینکا ریڈی جوایک ویٹرنری اسپتال میں خدمات نبھانے کولوروگاوں جانے کے لئے شاد نگر میں واقع اپنے گھر سے نکلی تھی، اس نے چہار شنبہ کی شب اپنی بہن کو فون کیااور کہا کہ گھر واپس آتے ہوئے اس کی ٹو وہیلر گاڑی پنچر ہوگئی ہے۔ اس نے اپنی بہن سے کہا کہ وہ خوفزدہ ہے اور کسی کو اس کی مدد کرنے اورگاڑی کی مرمت کرنے کی پیشکش کی ہے۔بعد میں جب اس کے افراد خاندان نے پرینکا سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو اس کا موبائل فون بند تھا۔پولیس نے کہا کہ پل کے قریب سے ایک 20-25 سالہ خاتون کی لاش ملی ہے۔سریدھر ریڈی نے لاش کو دیکھ کراپنی بیٹی پرینکا کے طور پر شناخت کی۔ سینئیر پولیس عہدیدار موقع واردت پر پہنچ گئے اور تفتیش کا آغازکیا۔

اس سے قبل رواں ماہ کے شروع میں اسی ضلع میں ایک اور بھیانک حادثے میں ایک شخص نے اپنے دفتر کے اندر ایک خاتون ریوینو عہدیدار کوزندہ جلا دیا تھا،لیکن اس عمل میں وہ خود بھی جل کر زخمی ہو گیا تھا۔یہ چونکا دینے والا حادثہ حیدرآباد کے مضافاتی علاقے میں رنگا ریڈی ضلع کے عبداللہ پورم تحصیل آفس میں پیش آیا تھا۔