والدین کو یہ شکایت رہتی ہے کہ ان کی اولاد بزرگوں کی مرضی کے خلاف اور خاندان کی عزت و ناموس کی پرواہ کئے بغیر اپنے شریک حیات کا خود انتخاب کرنے لگے ہیں۔ یہ حرکت جب خاندان کا بیٹا کرتا ہے تو کچھ برا بھلا کہہ کر اس نئے رشتہ کو اپنالیتے ہیں مگر جب یہی حرکت لڑکی کرتی ہے تو انہیں ایسا لگتا ہے کہ ان کا سب کچھ لٹ گیا ہے۔ حتیٰ المقدور لڑکی کو ایسی حرکت کرنے سے باز رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور جلد سے جلد اس کا نکاح کرتے ہوئے اپنی ناک بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اولاد کے اپنے طور پر اپنا شریک سفر منتخب کرلینے کا جب والدین کو پتہ چلتا ہے یا ایسی کوئی حرکت وہ کرلیتے ہیں جس سے خاندان کی عزت ملیامیٹ ہوجاتی ہے تو وہ خود کو قصور وار ماننے کے بجائے دوسرے عوامل و عناصر کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ کوئی ٹیلی ویژن بینی کو اپنی اولاد کے بگڑنے کا موجب ٹھہراتا ہے تو کسی کو رفتار معاشرہ ہی کھٹکنے لگتا ہے۔ اکثر والدین کویہ ثابت کرنے پر مصر ہوتے ہیں کہ ان کا لڑکا؍لڑکی تو شریف النفس تھے مگر ان کو بچہ؍ بچی کو پھانسا گیا۔ کسی کو یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ اولاد کی تربیت میں ان سے کوتاہیاں سرزد ہوگئیں اور وہ اپنا فرض پورا نہیں کرپائے۔ اولاد کو اسلامی طرز حیات دینے میں ناکام والدین ہی اصل میں ان کے بگاڑ کے ذمہ دار ہیں۔ جب یہ چھوٹے ہوتے ہیں تو ان کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں اور عیب کی پردہ پوشی کی جاتی ہے بلکہ بعض والدین تو اپنے بچوں کو اغیار کی معاشرت اختیار کرنے کی ترغیب دیتے ہیں اور یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ ماڈرن ہیں۔ بچوں کے ٹیلی ویژن بینی پر انہیں اعتراض ہوتا ہے اور نہ ہی انہیں یہ فکر ہوتی ہے کہ گھر کے باہر ان کے بچوں کی کیا مصروفیات ہیں۔ اب تو یہ حال ہے کہ گھر میں بچے کیا کرتے ہیں اس پر نہ باپ کی نظر ہوتی ہے اور نہ ہی ماں کی۔ بڑے بھائی اور بہن بھی اپنے چھوٹوں کی مصروفیات کے بارے میں جاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ بعض گھرانے تو ایسے ہیں جہاں بھائی کو اپنے بہن کی عشقیہ داستان معلوم ہوتی اور بہن کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے کتنی لڑکیوں سے معاشقہ چل رہا ہے۔ یہ دونوں ہی ایک دوسرے کی پردہ پوشی کرنے لگتے ہیں مگر جب ان کے پیروں تلے زمین کھسک جاتی ہے جب انہیں خارجاً مسموع ہوتا ہے کہ ان کی بیٹی؍بہن نے اپنے غیر مسلم بوائے فرینڈ کے ساتھ کورٹ میریج کرلی ہے یا کسی مندر میں اپنامذہب تبدیل کرکے سات پھیرے لے لئے ہیں۔ کئی لڑکیاں تو ایسی ہیں جو چھپ کر ازدواجی رشتہ میں بندھ جاتی ہے اور اپنے گھر میں کنواری ہی بنی بیٹھی رہتی ہیں۔ ان کے لئے جب رشتے آنے لگتے ہیں تو وہ کبھی تعلیم کا تو کبھی ملازمت کا بہانہ کرتے ہوئے انکار کرنے لگتی ہے۔ بھانڈہ تو اس وقت پھوٹ جاتا ہے جب ان کی مرضی کے خلاف ان کا رشتہ پکا کردیا جاتا ہے۔ اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کوئی ہمدرد بچوں کے معاشقہ کے بارے میں جانکاری دیتا ہے تو اپنے بچوں کے بارے میں جانکاری حاصل کرنا بھی گوارہ نہیں کیا جاتا بلکہ اس ہمدرد کو ہی برا بھلا کہہ دیا جاتا ہے۔ والدین کی ذمہ داریوں میں صرف اپنی اولاد کی کفالت اور تعلیم ہی نہیں ہے بلکہ ان کی صحیح تربیت اور ان کے نکاح کی عمر کو پہنچ جانے پر ان کا کرنا بھی ہے۔
لڑکے اور لڑکیوں کے اپنے طور پر اپنا شریک سفر تلاش کرلینے میں جہاں بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں وہیں ایک اہم وجہ ان کا وقت پر نکاح نہ کرنا بھی ہے۔ جہاں ہم جھوٹی شان وشوکت اور سماجی رتبہ کے اسیر بن کر اچھے رشتے ٹھکرانے لگتے ہیں تو وہیں لڑکے والوں کی جانب سے جہیز کے نام پر غیر شرعی مطالبات اور اعلیٰ پیمانہ پر تقریب کرنے کی فرمائش نے کئی لڑکیوں کو اپنے والدین پر بوجھ بنے بیٹھے رہنے پر مجبور کردیا ہے۔ ہماری سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ نکاح کو ایک شرعی فریضہ سمجھنے کی بجائے اسے اپنے سماجی رتبہ کے اظہار کا ایک موقع سمجھ لیا گیا ہے اسی لئے نکاح کے لئے شرعی اصطلاحات استعمال کرنے کی بجاے شادی جیسی اصطلاح استعمال کی جانے لگی ہے جس میں شرعی امور پر خرافات حاوی ہوجاتے ہیں۔ والدین کی اولاد کے تئیں ذمہ اس اہم ذمہ داری کے بارے میں ہر والدین کو یہ جاننا ضروری ہے کہ بچوں کے نکاح کے بارے میں کیا پیمانے ہونے چاہئے۔
نکاح کے لئے جو معیار ہونا چاہئے اس میں نبی دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تمہاری لڑکی کے بارے میں یا لڑکے کے بارے میں کوئی رشتہ ایسا مل جائے کہ جس کی دینداری اور اخلاق پر تم راضی اور مطمئن ہوتو بلا تردد اور بلا تاخیر اس سے اپنی اولاد کا نکاح کردو اگر تو نے ایسا نہیں کیا تو زمین کے اندر بڑا فتنہ اور بہت بڑا فساد برپا ہوگا۔ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے باپ کی یہ بھی ذمہ داری بتلائی ہے کہ جب لڑکا یا لڑکی نکاح کے قابل ہوجائے تو ان کے نکاح کا بندوبست کیا جائے اور تاکید سے فرمایا کہ نکاح کے قابل ہوجانے کے بعد اس معاملہ میں غفلت اور سستی بالکل نہ کریں۔ حضرت ابو سعید خدریؓ اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے اولاد کی نعمت سے سرفراز کیا تو اس کو چاہئے کہ اس کا نام اچھا رکھے اور اس کی اچھی تربیت کرے اور سلیقہ سکھائے‘ پھر جب وہ سن بلوغ کو پہنچے تو اس کے نکاح کا بندوبست کرے اگر اس نے اس کا نکاح کرانے میں کوتاہی کی اور اپنی غفلت اور کوتاہی سے جلدی نکاح کا بندوبست نہیں کیا اور اولاد کسی گناہ میں مبتلا ہوگئی تو باپ اور سرپرست اس کا ذمہ دار ہے۔ حضرت عمر بن الخطابؓ اور حضرت انس بن مالکؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت بیان فرمائی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ توراۃ میں یہ بات تحریر ہے کہ جس شخص کے یہاں لڑکی بارہ سال کی ہوجائے اور اس نے اس کا نکاح نہیں کیا پھر لڑکی اگر گناہ میں مبتلا ہوئی تو لڑکی نے جو گناہ کیا ہے اس کا ذمہ دار یہ شخص ہوگا۔
یہاں یہ واضح ہوکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توراۃ کے حوالہ سے جو حکم بیان فرمایا ہے اور اس پر نکیر نہیں فرمائی تو یہ حکم ہمارے ( یعنی امت محمدیہ کے ) لئے بھی حجت اور دلیل بنتاہے لہذا اس پر یہ اعتراض نہیں ہوگا کہ یہ توراۃ کا حکم ہے اور ہمارے لئے حجت نہیں ہے۔ اب ہم جائزہ لیں کہ فرمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمارے ہاں کتنی قدر ہے۔ آج تو کم عمری میں نکاح کو جہالت پر محمول کیا جانے لگا ہے اور اس کے لئے ملکی قوانین کا حوالہ دیا جاتا ہے جبکہ بہت سے معاملات میں ہم قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسرور ہوتے ہیں۔
مذکورہ بالا احادیث کی روشنی میں اولاد کے نکاح کے قابل ہوجانے کے بعد ان کے نکاح کا بندوبست کرنا باپ کی ذمہ داری ہے اور یہی حکم باپ کے نہ ہونے کی صورت میں ہر سرپرست کے لئے بھی ہے خواہ بھائی ہو یا چچا یا دوسرا رشتہ دار ۔ نکاح اگرچہ بالغ ہونے سے قبل بھی جائز ہے لیکن بلوغ کے بعد تو بہت ضروری امر ہے۔ لڑکیوں کے بالغ ہونے کے بعد ان کے پردہ کا اہتمام کرنا اور ان کی پاکیزہ زندگی کی حفاظت کرنا والدین کے ذمہ ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ فی زمانہ مسلم معاشرہ میں والدین اپنی اس اہم ترین ذمہ داری سے مختلف بہانے کرتے ہوئے فرار اختیار کررہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرہ میں بے راہروی اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب دختران ملت‘ ایمان کا دامن چھوڑ کر اغیار کو اپنا شریک حیات بناتے ہوئے مرتد بنتی جارہی ہیں اور اپنی دنیا وعاقبت کی تباہی کا سامان کررہی ہیں ۔ اس قبیح گناہ کے لئے جہاں یہ باشعور بلکہ تعلیم یافتہ لڑکیاں ذمہ دار ہیں وہیں والدین بھی اتنے ہی قصور وار ہیں چونکہ والدین نے تو اپنی اولاد کی عصری تعلیم پر بھر پور توجہ دی اور انہیں اعلیٰ تعلیم سے ہمکنار کیا مگر ان کی تربیت کے اپنی دینی فریضہ کو فراموش کرگئے ۔
بلا وجہ شرعی جیسا کہ آج کل رواج ہے کہ تعلیم اتنی دلانی ہے کہ عمر 25 برس سے زائد ہوجائے ‘ لڑکے میں فلاں فلاں خوبیاں ہونی چاہئے‘ سسرال والے ہمارے سماجی رتبہ کے حامل ہونے چاہئے اور اس کا اپنا ذاتی مکان ہونا چاہئے جیسی شرائط کے باعث بھی لڑکیوں کے نکاح میں تاخیر ہوجاتی ہے۔ ابتداء میں لڑکی کے لئے مناسب رشتے آتے ہیں مگر اس وقت خوب سے خوب تر کی تلاش میں انہیں ٹھکرادیا جاتاہے اور پھر عمر ڈھلنے کے ساتھ رشتوں کی پیشکشں کم ہوتی جاتی ہے اور پھر والدین کی پریشانیاں بڑھتی جاتی ہیں۔ اپنی کوتاہیوں اور انا کو دوش دینے کے بجائے زمانہ کو کوسنے لگتے ہیں جس سے کچھ فائدہ نہیں۔ ایسے میں اگر کوئی لڑکی گناہ کا ارتکاب کر بیٹھے تو اس کا گناہ ماں باپ یا سرپرست پر بھی ہوگا لیکن واقعتاً کسی عذر سے رشتہ نہ آئے کفو (برابر کے خاندانی رتبہ ) نہ ملنے یا کوئی لڑکا دیندار نہ ملنے کی وجہ سے یا پھر بیماری کے سبب نکاح نہیں کیا اور لڑکی نے غلطی کی ہے تو اس کا گناہ ماں باپ یا سرپرست کو نہ ہوگا مگر موجودہ دور میں اکثر والدین اپنے بالغ لڑکے کے نکاح میں محض تعلیم‘ تجارت یا روزگار کی وجوہات کی بناء تاخیر کرتے ہیں اور اس اثناء میں جوان لڑکے گناہ آلود زندگی میں مبتلا ہوجاتے ہیں جس کا ان دنوں بہت زیادہ احتمال ہے تو اس کا گناہ والدین اور سرپرست کو بھی ہوگا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نکاح کئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی صاحبزادیوں کے بھی نکاح کرائے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ لمبے چوڑے سامان جہیز کا انتظام کیا اور نہ ہی نکاح کرنے والوں کے ذمہ لمبی چوڑی شرائط کی فہرست پیش کی بلکہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھاکہ صاحبزادیاں نکاح کے قابل ہوگئیں اور مناسب گھرانے کے لڑکے مل گئے تو نہایت ہی سادہ طریقہ سے ان کا نکاح کردیا ۔ حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے واسطے متعدد حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہ اجمعین نے پیغام نکاح بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت فرمایا بلکہ یہ فرمایا کہ حکم الہیٰ کا منتظر ہوں ۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نکاح کا پیغام دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم الہیٰ سے منظور فرمایا جبکہ حضرت علیؓ مالدار نہ تھے نہ کوئی تاجر یا سرمایہ دار تھے بلکہ آپؓ کے پاس تو حق مہر ادا کرنے کے لئے کوئی رقم بھی جمع نہ تھی نہ بیوی کے ساتھ رہنے کے لئے کوئی مکان تھا۔ صرف علم اور تقویٰ تھا‘ عمر مناسب تھی‘ خاندان اچھا تھا بس لیکن پیغمبر انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دنیوی ہنر اور مالی حیثیت کو نہیں دیکھا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق مہر کے بارے میں حضرت علیؓ سے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس کیا چیز ہے؟ حضرت علیؓ نے عرض کیا جنگ بدر میں جو ذرع مال غنیمت کے حصہ میں ملی تھی اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کو فروخت کردو اور کچھ کپڑے‘ خوشبو خریدلو باقی مہر فاطمہؓ کو دے دو ! حضرت علیؓ نے حضرت عثمانؓ کے ہاتھ اس کو فروخت کردیا 500 یا 480 درہم ملے وہی رقم جناب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کردی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ کپڑے اور خوشبو وغیرہ خریدنے کے لئے فرمایا اور باقی رقم مہر میں ادا کرنے کا حکم دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جانب سے بطور جہیز جو سامان دیا وہ یہ تھا: ایک عدد لحاف‘ ایک عدد گدا چمڑے کا جس کے اندر درخت کی چھال بھری تھی‘ دو چکیاں آٹا پیسنے کے لئے اورکچھ گندم اور ایک عدد مشکیزہ ‘ دو عدد مٹی کے گھڑے۔
حضرت فاطمہؓ اور حضرت علیؓ ابن طالب کے اس نکاح میں کئی باتیں قابل اتباع ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘ نبی اور رسول تھے اس لئے حکم الہیٰ سے حضرت فاطمہؓ کا نکاح حضرت علیؓ سے کردیا اب امت کے پاس اللہ کا حکم تو نہیں آئے گا لیکن سنت رسول یہ ہے کہ استخارہ کرلیا جاے کہ جب کسی جگہ لڑکے کے لئے کسی کے یہاں پیغام دینا ہوتو استخارہ کرلیاجاے یا لڑکی کے رشتہ کا پیغام آیا تو استخارہ کرلیا جاے اس کے بعد کوئی اقدام کریں۔ نکاح آسان اور سادہ سا ہونا چاہئے اور معیار دینداری و تقویٰ ہو۔
پیغام نکاح کے لئے جو دیکھنا ہے وہ یہ کہ لڑکی کے انتخاب کا پیمانہ کیا ہونا چاہئے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( عام طور پر ) چار چیزوں کی بنیاد پر عورت سے نکاح کیا جاتاہے ۔ (1) اس کی مالی حیثیت کی بناء پر (2) اس کی خاندانی شرافت کی بناء پر (3 ) اس کے حسن و جمال کی بناء پر (4 ) اس کی دینداری اور تقویٰ کی بنیاد پر لیکن نکاح کرنے والے کو چاہئے کہ وہ دین اور دیندرای کی بناء پر نکاح کرے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دینداری اور تقویٰ دوسری چیزوں پر مقدم ہے۔ اگر کسی لڑکی یا عورت میں چاروں چیزیں پائی جائیں تو پھر بہت ہی بہتر اور اچھی لڑکی ہے لیکن اس میں سب چیزیں تو ہیں مگر دین نہیں ہے تو اس سے نکاح نہ کیا جائے اور کوئی چیز نہیں مگر دین ہے تو اس سے بھی نکاح کرلینا چاہئے۔ غرض یہ کہ دین اور دینداری کے بعد دوسری چیزوں کو دیکھا جائے لیکن لڑکی اگر خوبصورت ہے‘ مالدار ہے مگر دین بالکل نہیں یعنی بے ایمان اور کافر ہے اس سے نکاح جائز نہیں ہے حرام ہے اور لڑکی ایماندار اور مسلمان تو ہے لیکن دینی لحاظ سے کمزور ہے اگر اس سے بہتر دین والی لڑکی ملتی ہے تو بہتر دین والی کو ترجیح دی جائے۔ ایک اور حدیث سے اس کی تفسیر معلوم ہوتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دنیا اور اس کے جملہ ساز وسامان انسان کے لئے اسباب حیات اور متاع زندگی ہیں لیکن ان میں بہتر متاع زندگی نیک اور صالح عورت ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ ایسی عورتوں سے نکاح کرو جن کے بچے زیادہ پیدا ہوں اور وہ اپنے شوہر سے محبت کرنے والی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غلاظت کے ڈھیر پر اگی سبزی سے بچو ۔عرض کیا گیا اس کا کیا مطلب ہوا! فرمایا برے خاندان کی خوبصورت لڑکی سے بچو۔ فرمایا اپنے نطفے کے لئے اچھا انتخاب کرو اس لئے کہ قرابت کی رگیں آباء و اجداد سے اولاد کے جسموں میں منتقل ہوتی ہیں۔ لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو نصیحت فرمائی تھی ’’ بیٹے بری عورت سے بچتے رہنا کیونکہ وہ تجھے وقت سے پہلے بوڑھا کردے گی’ شریر اور بد اخلاق عورتوں سے بھی بچتے رہنا کیونکہ وہ تجھے خیر کی طرف نہیں لائے گی البتہ نیک عورتوں کا خیال رکھنا ان کا لحاظ کرنا ان سے ڈرتے رہنا۔
حضرت عمر بن خطابؓ نے اپنی بہو کا انتخاب اس کے خشیت الہیٰ کی بناء پر کیا تھا۔ اپنے دور خلافت میں وہ معمول کے مطابق امت کا حال جاننے کے لئے رات میں بستی کا گشت کررہے تھے کہ ایک جھونپڑی کے قریب سے گذرتے ہوئے انہیں ایک خاتون کی آواز سنائی دی جو شائد اپنی بیٹی کو دودھ میں پانی ملانے کی ترغیب دے رہی تھی۔ جب خاتون کو اس کی بیٹی نے یہ جواب دیا کہ امیر المومنین کا یہ حکم ہے کہ دودھ میں پانی نہ ملایا جائے تو اس کی ماں کا کہنا تھا کہ عمرؓ تھوڑی دیکھ رہے ہیں مگر لڑکی کا جواب تھا کہ عمرؓ نہ دیکھ رہے تو کیا ہوا عمرؓ کا (ہمارا ) رب تو دیکھ رہا ہے۔ امیر المومنین اس لڑکی کے جواب اور خوف الہیٰ سے بہت متاثر ہوئے اور اس وقت گھر کے باہر ایک نشان لگادیا اور تشریف لے گئے۔ جب صبح ہوئی تو اس لڑکی اور ماں دونوں کو بلایا اور اپنے بیٹے حضرت عاصم ؒ کو بلاکر فرمایا کہ اس لڑکی کے د ل میں اللہ کا خوف ہے ایسی لڑکی ہمارے گھر میں رہنے کے قابل ہے تم اس سے نکاح کرلو ۔ لڑکی بھی حضرت عمرؓ کے خاندان میں ان کے صاحبزادے سے رشتۂ زوجیت میں منسلک ہونے کی فرمائش پر بے حد خوش ہوئی چنانچہ اس کا نکاح حضرت عاصمؒ سے ہوگیا اور انہیں پاک نسل سے حضرت عمر ثانی عمر بن عبدالعزیز ؒ خلیفہ راشد پیدا ہوئے ۔ حضرت عمرؓ اس دیندار لڑکی کی خشیت الہیٰ سے اس قدر مثاثر ہوئے تھے کہ نہ صرف اسے اپنی بہو بنالیا بلکہ اسے تاکید کی تھی کہ جب بھی وہ امور خلافت سنبھالنے گھر سے باہر نکلیں ان کے سامنے وہی جملہ دہرائے کہ عمرؓ نہیں دیکھ رہے تو کیا ہو ا عمرؓ کا اللہ تو دیکھ رہا ہے۔
حضرت حسن بصریؒ سے ایک شخص نے دریافت کیا ! حضرت میری لڑکی نکاح کے قابل ہے ‘ اس کے لئے بہت سے لوگ رشتے کے خواہشمند ہیں ‘ اب لڑکے کے انتخاب میں آپ کی رائے کیا ہے۔ فرمایا ایسے لڑکے کا انتخاب کرو کہ جس کے دل میں اللہ رب العزت کا خوف ہو یعنی تقویٰ اور دینداری ہو اور وہ تمہاری لڑکی سے محبت کرے اور اس کی محبت میں تعظیم و احترام کا پہلو بھی ہوکہ کسی وجہ سے ناراض ہوتو ظلم و زیادتی نہ کرے۔ عبارت بالکل واضح ہے کسی تشریح کی محتاج نہیں ہے کہ لڑکا دیندار اور متقی ہو اس کے پاس ضرورت کے مطابق دینی علم ہو اور اپنے علم کے مطابق تقویٰ و طہارت کی زندگی گذارسکے اور اپنی بیوی سے دین و اخلاق کے لحاظ سے محبت کرنے والا ہو حسن و جمال اور مال و متاع کی غرض سے محبت کرنے والا نہ بنے کیونکہ دین و اخلاق کے لحاظ سے جب بیوی سے محبت کرنے والا بنے گا تو وہ حدود شرعیہ کی پابندی کرے گا۔ بیوی کی حیثیت اور اس کے مقام کو دیکھے گا۔ اس کے احترام و عظمت کو دیکھتے ہوئے غلطیوں پر تنبیہ تو کرے گا لیکن ظلم و زیادتی نہیں کرے گا۔ لیکن اگر حسن و جمال اور مال و متاع کی بنیاد پر محبت کرے گا تو حسن و جمال میں تغیر سے محبت میں تغیر واقع ہوگا ۔ بیوی سے مال و متاع کے حاصل نہ ہونے پر بیوی سے برا برتاؤ کرے گا۔ پھراگر دینی علم بھی نہ ہوگا تو ہر روز بیوی پر ظلم ڈھائے گا۔
نکاح کا پیغمبری معیار
- Advertisement -
- Advertisement -