حیدرآباد ۔ کشمیر کی ترقی کے نام پر آرٹیکل 370 کو برخاست کیا گیا ہے اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کشمیر کے متعلق بی جے پی حکومت نے جو اقدام کیا ہے وہ کشمیریوں اور ہندوستان کے حق میں ایک دلیرانہ اور بہتر فیصلہ ہے حالانکہ کشمیر کا موجودہ موقف اور شرح ترقی ہے وہ مودی کے گجرات اور دیگر بی جی پی ریاست سے کہیں بہترہے۔8 اگست کو وزیر اعظم نریندر مودی نے قوم کے نام اپنے خطاب میں کشمیر کی بدحالی و پسماندگی کا جو فسانہ سنایا ہے اس نے بھکتوں کی اس سوچ کو یقین میں تبدیل کردیا ہے کہ اگر کشمیر سے آرٹیکل 370 اور 35اے ختم نہیں کیا جاتا اور اس ریاست کو دو حصوں میں تقسیم نہ کیا جاتا تو آئندہ چند سال میں کشمیرتباہ ہوجاتا جبکہ محض 0.2 فیصد لوگ ہی اس فسانہ کومانتے ہیں کہ آرٹیکل 370 کے ہٹانے سے کشمیر مسئلے کا حل ہوسکتا ہے۔
بھگتوں کی سمجھ میں یہ حقیقت بھی نہیں آرہی ہے کہ خصوصی درجہ کی وجہ سے کسی ریاست کی ترقی دیگر ریاستوں کی بہ نسبت زیادہ مستحکم اور پائیدار ہوتی ہے اور اس ریاست پر دیگر ریاستوں کی طرح قرضہ جات کے بوجھ نہیں ہوتے۔ اس کے برخلاف اب جبکہ کشمیر کی یہ خصوصی حیثیت ختم ہوچکی ہے اور اسے دو حصوں میں تقسیم کیا جاچکا ہے، تو اس کی ترقی پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے لیکن بھکت اگر اس حقیقت کو سمجھنے لگیں توبھلا وہ بھکت ہی کیوں کہلائیں۔وزیر آعظم نے اپنے خطاب میں کشمیر میں جس ترقی کی بات کی ہے اس کے بارے میں بس اتنا کہا جاسکتا کہ یہ ایک عمدہ تقریر تھی لیکن افسوس کہ اس میں کشمیر کے صرف منفی پہلو کو ہی پیش کیا گیا۔ جبکہ سچائی یہ ہے کہ جی ڈی پی فی کس کے لحاظ سے جموں و کشمیر پورے ہندوستان میں 24 ویں مقام پر ہے جو مغربی بنگال کے بعد دوسرے نمبر پر آتا ہے۔
اس کے بالمقابل بی جے پی کے زیراقتدار ریاستوں میں سے آسام 29 ویں نمبر پر ہے، جھارکھنڈ 30 ویں نمبر پر ہے، اترپردیش 32 ویں نمبر پر ہے، بہار 33 ویں نمبر پر ہے، یہاں تک کہ مدھیہ پردیش و اڈیسہ بھی جموں و کشمیر سے بہت پیچھے ہیں۔ مدھیہ پردیش کی شرح بی جے پی دورِ حکومت کی ہے جہاں بی جے پی مسلسل 15سال تک حکمراں تھی۔ جی ڈی پی پر کیپیٹل کی بنیاد پر کسی ریاست و ملک کی ترقی کے مجموعی صورت حال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے لیکن وزیر آعظم نے اپنی تقریر میں اس پہلو پر کچھ کہنے کے بجائے کشمیر کو ملک کی دیگر ریاستوں کی طرح ترقی یافتہ بنانے کی بات پر پورا زور دیا۔ملٹی ڈائی مینشل پاورٹی انڈکس یعنی کہ ہمہ جہت غربت کی شرح جو عام لوگوں کی غربت کو ناپنے کا ایک پیمانہ ہے، اس کے لحاظ سے بھی جموں کشمیر ملک کی 36 ریاستوں بشمول مرکز کے زیرانتظام ریاستوں میں 15ویں مقام پر ہے جبکہ اترپردیش وگجرات جیسی ریاستیں بھی اس معاملے میں جموں وکشمیر سے بہت پیچھے ہیں۔ اسی کے ساتھ جموں وکشمیر ہیومن وہیلتھ کے میدان بھی میں اترپردیش وگجرات وملک کی دیگر ریاستوں سے بہتر نہ سہی تو ان سے کم بھی نہیں ہے۔ کشمیر کی ترقی پر ایک نظر ڈالی جائے اور دیگر ریاستوں سے اس کا موازنہ کیا جائے تو تجزیاتی اعداد وشمار کشمیر کے حق میں ہی دیکھائی دیتے ہیں ۔
یہ اعداد و شمار دی پرنٹ اور سب رنگ نیز دیگر کئی پورٹل نے شائع کیے ہے۔ سب سے پہلے ہم وزیر آعظم نریندر مودی اور انکے خاص امیت شاہ کی ریاست گجرات پر نظر ڈالتے ہیں۔ موت کی بہ نسبت پیدائش کی شرح گجرات میں 69 ہے تو جموں و کشمیر میں 74 ہے۔ پانچ سال کی عمر کے بچوں کی اموت کی شرح گجرات میں 33 ہے تو جموں و کشمیر میں یہ 26 ہے۔ فی عورت بچے بالیدگی کی شرح جموں و کشمیر میں 1.7 ہے تو وہیں گجرات میں یہ شرح2.2 ہے۔ اسی طرح 15سال سے 19 سال کے درمیان کی لڑکیاں جو8 سال تک اسکول میں پڑھ چکی ہیں ان کی شرح گجرات میں 75 ہے جبکہ جموں وکشمیر میں 87 ہے۔ بچوں میں غذائی قلت کے سبب کم وزن کی شرح گجرات میں 39 ہے جبکہ جموں وکشمیر میں 17ہے۔ عورتوں میں بی ایم آئی (باڈی ماس انڈیکس) کی شرح گجرات میں 27 ہے جبکہ جموں وکشمیر میں یہ محض 12ہے۔ بچوں کا مکمل ٹیکہ لگانے کی شرح گجرات میں 50 ہے جبکہ جموں وکشمیر میں 75 ہے۔ دیہی علاقوں کے عوام کی غربت کی شرح گجرات میں 22 ہے جبکہ جموں وکشمیر میں 12 ہے۔ دیہی علاقوں کے لوگوں کو مزدوری ملنے کی شرح گجرات میں 116ہے جبکہ جموں وکشمیر میں 209 ہے۔
اب ذرا ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کی صورت حال پر غور کریں۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (این ایف ایچ ایس) کے تحت جموں وکشمیر میں بچوں میں غذائی قلت سے کم وزن کی شرح 16.6 ہے تو اترپردیش میں یہ شرح39.5 فیصد ہے۔ جبکہ ملک کی سطح پر یہ شرح 35.8 ہے۔ بچوں کی اموات کی شرح جموں کشمیر میں ایک ہزار بچوں میں 32 ہے تو اترپردیش میں یہ شرح 64 ہے اور ملک میں یہ شرح 41 ہے۔ پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی اموت کی شرح جموں وکشمیر میں ایک ہزار میں 83 ہے تو اترپردیش میں یہ 78 ہے اور ملکی سطح پر یہ شرح 50 ہے۔ فیملی پلاننگ کے بارے میں بیداری کی شرح جموں وکشمیر میں 57 فیصد ہے تو اترپردیش میں 45 فیصد اور پورے ملک میں 53 فیصد۔ کم عمر (15 سے 19سال کے درمیان) میں مائیں بننے کی شرح جموں وکشمیر میں 2.9 فیصد ہے تو اترپردیش میں یہ3.8فیصد ہے اور ملک میں یہ9.7 فیصد ہے۔ ایامِ حمل میں عورتوں کی دیکھ بھال کی شرح جموں وکشمیر میں81.4 فیصد ہے تو اترپردیش میں یہ فیصد26.4 فیصد ہے اور ملک میں 51.2 فیصد ہے۔
بچوں کومکمل ٹیکے لگانے کی شرح جموں وکشمیر میں 75فیصد ہے، اترپردیش میں 51 فیصد جبکہ پورے ملک میں 62 فیصد۔ عورتوں پر جنسی تشدد کی شرح جموں وکشمیر میں9.4فیصد ہے، وہیں اترپردیش میں یہ شرح.4 36 فیصد ہے اور پورے ملک میں 31 فیصد ہے۔ عورتوں پرعام تشدد جموں کشمیر میں 14 فیصد ہے، اترپردیش میں 38 فیصد ہے اور پورے ملک میں 33 فیصد۔ اسی شرح کے لحاظ سے دیگر معاملات کا بھی موازنہ کیا جاسکتا ہے۔
ان حقائق و اعداد و شمار کے باوجود ملک کو وزیر آعظم اور امیت کی جانب سے یہ باور کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جموں وکشمیر کی فلاح وبہبود نیز ترقی آرٹیکل 370 کی وجہ سے رکی ہوئی تھی۔ جبکہ یہ تمام اعدا وشمار حکومت کی ہی ویب سائیٹس پر موجود ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر انہیں یہ جھوٹ بولنے کی کیوں ضرورت پڑ رہی ہے؟ تو اس کا جواب ان کے ووٹ بینک میں پوشیدہ ہے۔ جیسا کہ ابتداءمیں عرض کیا گیا کہ وزیر آعظم کے خطاب نے عقل سے پیدل بھکتوں کو آنکھ سے بھی اندھا کردیا ہے۔ اگریہ حقیقی صورت حال ملک کے عوام کے سامنے آجائے گی تو اس سیاسی غبارے کی ہوا نکل جائے گی۔ اس لحاظ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ مودی نے اور شاہ نے ملک کے دیگر سنگین مسائل خاص طور سے تباہ ہوتی معیشت سے عوام کی توجہ ہٹانے اورسماج میں پولرائزیشن کے لئے جموں وکشمیر کے ساتھ سخت ناانصافی کی ہے اور ملک کی ترقی کا جھوٹا خواب دکھا کرعوام کو گمراہ کرنے کی کوشش قصداً کی ہے۔