حیدرآباد۔ ادھر صاف کرو ادھر گندا کرتے ،یہ حیدرآباد میں ایک مشہور جملہ ہے اور اب لگتا ہے کہ یہ حیدرآباد کی ایک شناخت بنتا جارہا ہے کیونکہ گزشتہ روز سیلاب کے پانی کی نکاسی کےلئے صاف کئے جانے والے نالے کو عوام نے پھر سے کوڑا کرکٹ سے بھر نا شروع کرنے کی خبر منظر عام پر آئی تھی اس کے اگلے ہی دن قطب شاہی دور کے تاریخی کٹورا حوض کو 8 کروڑ کے مصارف سے صاف کئے جانے کے چند دنوں بعد ہی اسے دوبارہ کچرا گنڈی میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔
تفصیلات کے بموجب کٹورا حوض 500 سالہ قدیم پانی کے ٹینک کو قطب شاہی حکمرانوں نے گولکنڈہ میں تعمیر کیا تھا ، جسے جی ایچ ایم سی نے لگ بھگ 15 دن قبل صاف کیا تھا لیکن اب یہ ایک اور کچرا گنڈی میں تبدیل ہوگیا ہے ۔ مقامی لوگوں نے کہا ہے کہ چونکہ اس آبی ذخیرہ کے اطراف کوئی باڑ نہیں ہے اور بالکل صفر چوکسی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے لہذا لوگ اپنا کوڑا کرکٹ حوض کے گرد پھینک دیتے ہیں۔ میونسپل ملازمین نے بھی کچرا صاف نہیں کیا ہے ، جس کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہوگئ ہے۔
مقامی شخص فرحت خان نے کہا کہ بحالی کا کیا فائدہ؟ کیا یہ صرف ٹیکس دہندگان کے پیسوں کا ضیاع نہیں ہے؟ پہلے حکام نے یہاں کچرے کے انبار کو جمع ہونے دیا پھر اچانک ایک دن وہ اس کچرے کے انبار کو صاف کرتے ہیں اور اس کا سہرا اپنے سر لیتے ہیں۔حالانکہ اس کام میں غیر ضروری طور پر خطیر رقم خرچ ہوتی ہے ۔ ہندوستان کے آثار قدیمہ سروے (اے ایس آئی) تلنگانہ کے ایک عہدیدار نے کہا پچھلے سال ،پانی کے اس تاریخی حوض کی بحالی اور اس کی خوبصورتی کے لئے تقریبا` 8 کروڑ ڈالر خرچ ہوئے تھے تاہم مناسب دیکھ بھال نہ کرنے کی وجہ سے یہ دوبارہ کچرا کنڈی میں تبدیل ہوگیا ہے ۔
عہدیدار نے مزید کہا ہے کہ معاملے پر جی ایچ ایم سی کو مکتوب لکھا ہے لیکن ہماری التجا بہرے کانوں کے سامنے پیش ہوئی ہے ۔ اس کے بارے میں کیا کیا جاسکتا ہے؟ اے ایس آئی جاکر تو کوڑا کرکٹ صاف نہیں کرسکتے ہیں۔ یہ جھیل زیرزمین چینلز کے ذریعہ درگم چیروو سے منسلک ہے اور تاریخ کے ابواب سے اس کا تعلق ہے لیکن عوام کی مجرمانہ لاپرواہی اور حکام کی خاموشی نے اسے دوبارہ کچرا کنڈی میں تبدیل کردیا ہے ۔