حیدرآباد – پارلیمنٹ میں ان دنوں ایک کے بعد دیگرے کئی متنازعہ بلز کو قانون بنانے کا سلسلہ چل پڑا ہے جس میں قانون حق معلومات (آر ٹی آئی) میں بھی ترمیمی بل 2019 شامل ہے لیکن جب پارلیمنٹ میں این ڈی اے اور اس کی حلیف جماعتیں آر ٹی آئی کو منظور کروانے کی کوشش میں تھیں تو تین چیف منسٹرز ایسے تھے جنہوں نے بی جے پی کی وہ مدد کی جو شاید اس کی حلیف جماعتیں بھی نہیں کرتیں۔ ریاست تلنگانہ کے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ، پڑوسی تلگو ریاست آندھراپردیش کے وائی ایس جگن موہن ریڈی اور اڈیشہ کے چیف منسٹر بیجو پٹنائک نے بی جے پی کی ایسی مدد کی کہ وہ آر ٹی آئی ترمیمی بل 2019 کو بہ آسانی راجیہ سبھا میں منظور کروانے میں کامیاب ہوئی۔
بی جے ڈی، ٹی آر ایس اور وائی ایس ار سی پی نے جس طرح بی جے پی کی مدد کی ہے اس نے کئی سوال اٹھا دیئے ہیں۔ بی جے پی جو پہلے ہی ہندوستان کی ان ریاستوں پر بھی اپنی توجہ نہ صرف مرکوز کرچکی ہے بلکہ اقتدار کے حصول کے لئے ایسے جائز اور ناجائز ہتھکنڈے اختیار کرچکی ہے جس کے ذریعہ اس کے اقتدار کے حدود سارے ہندوستان بھر میں پھیل جائیں۔ کرناٹک کے ایک طویل سیاسی ناٹک کے بعد بی جے پی جنوبی ہندوستان کی اس ریاست میں اپنے اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے، اب اس کے بعد اس کی نظر تلنگانہ پر بھی ہے جبکہ آندھراپردیش میں اس نے پہلے ہی جگن موہن ریڈی کے ذریعہ اپنے حریف چندرا بابو نائیڈو کو راستہ سے ہٹایا ہے۔
آندھرا پردیش میں بی جے پی نے پہلے ہی تین راجیہ سبھا رکن پارلیمنٹ ایسے حاصل کئے ہیں جنہوں نے تلگودیشم کو خیرباد کہتے ہوئے حکومت کی تائید کی ہے۔ ان کے پےچھے اس حقیقت پر بھی ہنوز پردہ پڑا ہوا ہے کہ چندرا بابو نائیڈو نے کیا ان ارکان پارلیمنٹ کو روانہ کیا یا وہ خود تلگودیشم کو خیرباد کہتے ہوئے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی۔ حےدرآباد کے رکن پارلیمنٹ نے اس موضوع پر بھی سوال اٹھایا تھا اور یہ بھی گمان کیا جارہا ہے کہ تلنگانہ سے بھی کئی ارکان پارلیمنٹ بی جے پی میں شمولیت اختیار کرسکتے ہیں۔ تلنگانہ میں دسمبر 2018 کو اسمبلی انتخابات ہوئے تھے اس کے بعد مئی 2019 میں عام انتخابات ہوئے لیکن اس 6 ماہ کے دوران بی جے پی نے اپنے ووٹ بینک میں تین گنا اضافہ کیا ہے اور لوک سبھا انتخابات میں اس نے چار حیران کن نتائج بھی حاصل کئے ہیں۔
اڈیشہ میں بھی بی جے پی نے اپنی راہیں ہموار کرلی ہیں جہاں اس نے 21 ارکان پارلیمنٹ کی فہرست میں اپنی فتوحات کے 8 نام درج کروائے ہیں لیکن یہ نوین پٹنائک کی تیز ذہنیت تھی کہ انہوں نے ایسی سیاسی حکمت عملی اختیار کی کہ انہوں نے اپنا اقتدار بی جے پی کے حملوں سے محفوظ رکھا۔ یہ تین ریاستیں ایسی ہیں جہاں بی جے پی اول یا آخر اپنے اقتدار کے قدم جمانے کے لئے کوشاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان تین ریاستوں کے چیف منسٹروں پر یقینا اپنے اقتدار کو بچانے کا خوف ہے جس کی وجہ سے ان تین چیف منسٹروں نے راجیہ سبھا میں بی جے پی کا آر ٹی آئی میں ترمیم کرنے کے فیصلے کو حمایت کرنا ہے۔ مذکورہ چیف منسٹروں نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے بی جے پی سے خائف ہوکر اس متنازعہ کوشش میں بی جے پی کا ساتھ دیا جو مرکز میں بی جے پی اور ریاست میں اپنی حکومتوں کے مطلق العنان بنانے کے لئے بھی اہم تھا کیونکہ حق معلومات کے ذریعہ ہی عوام حکومت کی کارکردگی کے متعلق سوال کرسکتے ہیں لیکن بی جے پی کو یہ شروع سے ہی پسند نہیں کہ اس کی کارکردگی اور کاموں کے متعلق عوام سوال کریں۔ یہی وجہ ہے کہ حق معلومات کے قانون کو ہی کمزور بنایا جائے اور اپنی مطلق العنانیت کو مضبوط کیا جائے۔
تلنگانہ، آندھرا پردیش اور اڈیشہ کے چیف منسٹروں کی جانب سے قانون حق معلومات کی ترمیمی بل کے وقت خاموش بی جے پی کی حمایت میں جہاں کئی سوال اٹھائے ہیں وہیں گریٹر نوئیڈا کی یونیورسٹی کے سابق سنٹرل انفارمیشن کمشنر اور نلسر یونیورسٹی آف حیدرآباد کے کانسٹی ٹیوشنل لا کے ساتھ پروفیسر ڈی کے سنگھ نے مذکورہ تین چیف منسٹروں کو تحریر کردہ اپنے ایک کھلے مکتوب میں 8 اہم سوالات کے جوابات طلب کئے ہیں۔ تنقید نگار ڈی کے سنگھ نے نوین پٹنائک، جگن موہن ریڈی اور کے سی آر کے متعلق کہا ہے کہ ان کی گردنوں پر بی جے پی تلوار لٹک رہی ہے لیکن اس کے باوجود اپنے مفادات کے لئے انہوں نے دشمنوں کے خیموں میں داخلہ لیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دشمنوں کے خیموں میں داخلہ لینے کے باوجود کیا یہ سکون کی نیند سو پائیں گے جس کے لئے ان کے نام تحریر کردہ کھلے مکتوب کے چند سوالات اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
انہوں نے تینوں چیف منسٹروں سے استفسار کیا کہ بی جے پی نے قانون حق معلومات کے ساتھ ترمیم کی ہے اس سے سنٹرل انفارمیشن کمشنرس ہی نہیں بلکہ ریاست میں موجود انفارمیشن کمشنرس کی خود مختاری ختم ہو جائے گی۔ کیا تینوں چیف منسٹرس اس حقیقت سے واقف نہیں جب آپ کے ارکان پارلیمنٹ اس متنازعہ بل کے حق میں ووٹ دے رہے تھے تب آپ کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ آپ مرکزی حکومت کو ریاستی امور میں مزید دخل اندازی کے لئے راہ ہموار نہیں کررہے تھے جس مےں خاص کر آزادی کے اصول بدل دیئے جاسکتے ہیں۔
کیا تین چیف منسٹر اس حقیقت سے واقف نہیں تھے کہ وہ اپنی دستوری آزادی کو مرکزی حکومت کے آگے خود سپردگی کررہے تھے۔ کیا یہ تینوں چیف منسٹرس اس حقیقت سے واقف نہیں کہ بی جے پی کی قانون حق معلومات میں حمایت دراصل بتدریج دہلی حکومت کے آگے اپنی خود مختاری کو ختم کرنا ہے جس سے اپنی ریاستی عوام کے بنیادی حقوق ختم ہونے کے علاوہ ہندوستانی دستوری حقوق میں بھی مداخلت ہے۔ کیا یہ تین چیف منسٹر اس حقیقت سے واقف نہیں تھے کہ بی جے پی کی جس کوشش میں ان کے ارکان پارلیمنٹ حمایت کررہے تھے وہ دراصل ہزاروں ہندوستانیوں کی خودمختاری کو ختم کرنے اور صرف 10 روپے کی درخواست کے ذریعہ اپنی شکایت ارباب مجاز تک پہنچانے کے علاوہ معلومات حاصل کرنے کے لئے تھی۔ یہی نہیں بلکہ ہندوستانیوں کی یہ وہ طاقت تھی جس کے ذریعہ وہ بدعنوانیوں کے خلاف اپنی آواز اٹھاسکتے تھے۔ حکومت کے چھوٹے اور بڑے محکموں میں کئی ایسے عہدیدار موجود ہیں جن کی بدعنوانیوں اور روشت خوری کے خلاف عوام اپنی آواز بلند کرسکتے تھے۔ اس مکتوب میں ان تین چیف منسٹروں سے کیا جانے والا ایک اور سوال بھی کافی اہم جس میں پوچھا گیا کہ ان تین چیف منسٹروں نے اس غیر دستوری، غیر جمہوری اور مخالف وفاقی بل کی حمایت کرتے ہوئے کیا حاصل کیا ہے؟