Tuesday, May 13, 2025
Homeتلنگانہگلی نلگنڈوی کے نام سے ایوارڈ کی اجرائی کا مطالبہ

گلی نلگنڈوی کے نام سے ایوارڈ کی اجرائی کا مطالبہ

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد۔ اردو ادب دنیا کو دکن نے ایسے جگماتے ستارے دئے ہیں جن کی روشنی آنے والی نسلوں کو برسوں تک راہ دکھاتی رہے گی ۔ پہلے صاحب دیوان شاعر کا تعلق بھی دکن سے ہی رہا اور دورجدید میں کئی ایسے شاعر ہوئے ہیں جنہوں نے دکن کی روایت کو ادب دنیا میں آگے بڑھایا ہے۔

 دکنی شاعری ہر دور میں اپنے علاقہ کی ترجمان رہی ہے کیوں کہ یہ مقامیت سے پرُ ہوتی ہے جس میں زندگی سے جڑی سچائیوں کو نہایت پرتکلف انداز میں پیش کیا جاتا ہے لیکن اہلِ زبان اور اہل شمال نے کبھی بھی دکنی شاعری کو معیاری شاعری تصور نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ آج یہ ایک مخصوص علاقہ تک ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے ۔گنگاجمنی تہدیب کے فروغ میں دکنی شاعری نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔ چاہے وہ اعجاز حسین کھٹا ہوں یا علی صائب میاں’ سرور ڈنڈا’ سلیمان خطیب’ نذیردہقانی’ حمایت اللہ یا پھر گلی نلگنڈوی ہوں سبھی نے دکن کی علاقائی تہذیب وثقافت کو نہ صرف اپنی شاعری کے ذریعہ فروغ دیا بلکہ ان کے کئی فن پاروں کو اسٹیج پر بھی پیش کیا گیا۔

 دکنی ادب اردو شعروسخن کا وہ روشن باب ہے جسے ہر گز فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ ان خیالات کا اظہارسینئر صحافی سید علی حیدر رضوی نے اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ ہفتہ روزہ ترکشِ ہند کے زیر اہتمام دکنی ادب گلی نلگنڈوی کی شاعری کے عنوان سے اردو گھر مغل پورہ حیدرآباد میں یادگلی نلگنڈوی ادبی اجلاس اور مزاحیہ مشاعرہ کا انعقاد عمل میں آیا جس میں مہمانان خصوصی کی حیثیت سے پروفیسر ایس اے شکور، سابق سکریٹری وڈائریکٹر اردو اکیڈیمی تلنگانہ’ باقر مرزا سابق پی آئی بی آفیسر، ڈاکٹر م ۔ق۔ سلیم، صدر شعبہ اردو شاداں کالج اور محمد ریاض احمد،صدر ایچ یو جے نے شرکت کی۔

 علی حیدر رضوی نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ آج وقت آچکا ہے کہ ہم اپنے زمین سے جڑے فن کاروں کی اہمیت کو سمجھیں اوران کی تخلیقات کو وقعت کی نگاہوں سے دیکھا جائے ان پر تحقیقی وتنقیدی مضامین لکھے جائیں۔رسائل واخبارات میں گوشے وشمارے شائع کئے جائیں۔تب ہی انہیں بھر پور خراج پیش کیا جاسکے گا۔

 اس موقع پر ترکشِ ہند کے مدیر طاہر رومانی نے کہا کہ فری پریس ایڈیٹرس اینڈ جرنلٹس فیڈریشن گذشتہ دوسال سے اردو صحافی برادری کیلئے مشاعرے اور مختلف ادبی پروگراموں کا انعقاد عمل میں لارہا ہے جس کا واحد مقصد صحافیوں کی ادبی صلاحیتوں کو منظر عام پر لانے کے ساتھ فروغ دینا ہے ۔ انہو ں نے گلی نلگنڈوی پر ادبی اجلاس کے انعقاد پر اور اس کی غیر معمولی کامیابی پر تمام معاونین سے اظہارتشکر کیا اور آئندہ بھی اس طرح کے تعاون کو برقرار رکھنے کی خواہش کی۔

 اجلاس سے ہم کلا م ہوتے ہوئے پروفیسر ایس اے شکور نے کہا کہ دکنی شاعری بہت دل نگیں ہوتی ہے ۔گلی نے اسے دکنی کلام کے ذریعہ اس دور میں ایک تہلکہ مچادیا تھا ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے فنکاروں کو پھر سے یاد کیاجائے اور ان کے کلام وفکر پر مضامین ومقالے پڑھے جائیں ۔ادبی اجلاس کو مخاطب کرتے ہوئے سابق انفرمیشن آفیسر پی آئی بی باقر مرزا نے خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ گلی نلگنڈوی کے انتقال کے کافی دنوں بعد انہیں کسی تنظیم کی جانب سے یاد کیا جارہا ہے جو قابل تقلید اقدام ہے ۔ دکنی شاعری بڑی نمکین شاعری ہوتی ہے جس میں دکن کا سانو لا پن تو ہوتا ہی ہیں ساتھ میں لہجہ کی روانی بھی بڑی دل پذیر ہوتی ہے ۔ بلاشبہ گلی دکنی شاعری کا بڑا نام ہے ۔

 محفل سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر م ۔ ق ۔ سلیم نے نہایت تفصیل کے ساتھ دکنی ادب کی تاریخ پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے اس موقع پر برملا اظہار کیا کہ مغلیہ سلاطین نے دکنی تہدیب کو پھلنے اور پھولنے نہیں دیا ورنہ آج دکنی ادب برصغیر کی شناخت بن جاتا۔ انہوں نے کہا کہ دکنی شاعری میں بڑی بے تکلفی ہوتی ہے جس میں بالکل سیدھے سادہ انداز میں مدعا بیان کیا جاتا ہے ۔ گلی نلگنڈوی دکنی شاعری کا ایک ایسا نام ہے جس نے اپنے عہد کی بجا طور پر ترجمانی کی اور یہاں کے سماجی وسیاسی ، تہدیبی وثقافتی موضوعات کو اپنی شاعری کا سرنامہ بنایا۔ موصوف نے گلی کے چیدہ چیدہ اشعار پیش کرتے محفل کو زعفران زار بنادیا۔

 اس موقع پر ریاض احمد، صدر ایچ ۔ یو ۔ جے نے اپنے خطاب میں کہا کہ گلی نلگنڈوی سرزمین حیدرآباد کے استاد شاعر نظیر علی عدیل کے شاگرد تھے ۔شاعری کے علاوہ گلی نے پیشہ تدریس کو بھی اختیارکیا تھا۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ریاستی اردو اکیڈیمی ان کی یاد میں آج تک کوئی ایوارڈ قائم نہیں کرسکی ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ جلد از جلد اس کی تلافی کی جائے ۔