Monday, June 9, 2025
Homeبیناتگناہوں سے سچی اور پکی توبہ کرلیں

گناہوں سے سچی اور پکی توبہ کرلیں

- Advertisement -
- Advertisement -

محبوب العلماء حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی
ہم نے لوگوں کو چھوٹے چھوٹے خدا بناڈالے ہیں جو حقیقت میں نہ ہی نفع دے سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی نقصان پہنچاسکتے ہیں۔ ہمیں کوئی پریشان نہیں کرتا بلکہ ہماری بد اعمالیاں ہمیں پریشان رکھے رہتی ہیں۔ گناہوں سے توبہ کرتے ہی ہماری پریشانیاں دور ہوجاتی ہیں۔ نیکیوں اور گناہوں کی اپنی تاثیر ہوتی ہے۔ گناہ کرنے سے پریشانی ہوتی ہے اور نیکی کرنے سے سکون ملتا ہے۔ انسان کو اپنا گناہ برے نہیں لگتے۔ کسی دوسرے فرد کے بارے میں شک آجائے تو انسان اس سے نفرت کرنے لگتا ہے مگر اپنے بارے میں یقین ہوتا ہے کہ وہ گناہ کررہا ہے اس کے باوجود وہ اپنے آپ سے محبت کرتا ہے۔ گناہ کینسر جیسا ہے جس کا واحد علاج یہی ہے کہ اسے چھوڑدیا جائے۔ گناہ کی ابتداء کچے دھاگے کی مانند کمزور ہوتی ہے اور اسے چھوڑنا آسان ہوتا ہے مگر انتہا میں یہ جہاز کے لنگر کی طرح مضبوط ہوتی ہے۔ ہر چیز کی ایک تاثیر ہوتی ہے‘ اسی طرح گناہ کی بھی تاثیر ہوتی ہے جو انسان کے دل کو پریشان کردیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گناہ کتنی آزادی اور سہل پسندی اور کامیابی سے ہی کیوں نہ کیا جائے مگر وہ انسان کو پریشان کئے دیتا ہے۔ نیکی والی زندگی میں خشک روٹی کھاکر بھی پرسکون زندگی گذاری جاسکتی ہے جبکہ گناہوں بھری زندگی میں ایرکنڈیشنڈ کمروں میں بھی چین کی نیند نہیں آتی۔ آج کی دنیا میں مادی سہولتوں کی انتہا ہے۔ کھانے کی بے انتہا ڈشس ہیں کہ گنتی مشکل ہے‘ پینے کے لئے مشروبات ہیں‘ مکانات محل کی مانند ہیں اور سواریاں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں‘ ایرکنڈیشنڈ‘ ریفریجریٹر‘ ریل‘ جہاز ‘ ٹیلی فون انٹر نیٹ وغیرہ کی سہولتیں ہیں مگر انسان کی زندگی میں سکون نہیں ہے۔ سکون ان چیزوں سے نہیں ملتا بلکہ اللہ کی ذات سے ملتا ہے۔ مادی سہولتیں آج جتنی ہیں پہلے کبھی نہیں تھیں مگر انسان آج جتنا پریشان ہے پہلے کبھی نہیں تھا۔ ان دنوں دو الفاظ Depression اور Tension بہت سے لوگوں کی زندگی کا حصہ ہیں۔ ان دو الفاظ کی اردو میں کوئی خاص اصطلاح نہیں ہے کیونکہ ہمارے بزرگوں کی زندگی میں یہ دونوں بیماریاں تھیں ہی نہیں۔یہ دو بیماریاں ان لوگوں کی زندگیوں کا خاصہ بن جاتی ہیں جو اللہ رب العزت سے غفلت بھری زندگی گذارتے ہیں۔ آج ہر انسان چاہتا ہے کہ اس کی پریشانیاں دور ہوجائیں مگر ہمارا یہ حال ہے کہ ایک پریشانی ختم بھی نہیں ہوتی کہ دوسری پریشانی آدھمکتی ہے۔ گناہ کرنے سے رزق‘ صحت اور وقت سے برکت نکل جاتی ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نیکو کاری کی زندگی گذارتے تھے اس لئے ان کے رزق میں کشادگی تھی۔ ایک صحابیؓ ایک مرتبہ رفع حاجت کے لئے جاتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک چوہا اپنے بل سے برآمد ہوتا ہے جس کے منہ میں ایک اشرفی ہوتی ہے جو باہر چھوڑ کر چلاجاتا ہے‘ چوہا یہ عمل دو چار مرتبہ دہراتا ہے۔ صحابیؓ رسولﷺ حیران ہوجاتے ہیں اور وہ اشرفیاں لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور سارا ماجرا سناتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ کیا یہ اشرفیاں وہ استعمال کرسکتے ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ رب العزت تمہارے لئے غیب سے رزق دینے کا بندوبست کیا ہے۔ اللہ جل جلالہ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات بجالانے والوں کو خالق کائنات بلوں سے رزق ملا کرتا ہے اور ہمارا یہ حال ہے کہ ہماری ساری آمدنی مختلف بلوں بجلی بل‘ ڈیزل بل‘ انشورنس بل وغیرہ میں چلی جاتی ہے اور ہاتھ میں کچھ نہیں بچتا۔ انہوں نے بتایا کہ ہوٹلوں میں پکوان کو گرم رکھنے برتنوں کے نیچے آگ کی ٹکیہ جلائی جاتی ہے جو برتن کے لئے Heat Source ہوتے ہیں‘ اسی طرح گناہ بھی انسان کے لئے Heat Source کا کام انجام دیتے ہیں۔ جب گناہ کرتے ہیں تو کبھی کسی کی بیوی Heat Source بن جاتی ہے تو کبھی اولاد بن جاتی ہے۔ اسی طرح کچھ عورتوں کے لئے خاوند Heat Source بن جاتے ہیں۔ والدین کے لئے اولاد تکلیف کا باعث بن جاتی ہے۔ بیٹا نافرمان ہوجاتا ہے تو بیٹی غیر مسلم کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے۔ کبھی گھر کے لوگ بیمار پڑجاتے ہیں۔ کسی کے لئے پڑوسی Heat Source بن جاتا ہے۔ ایک بزرگ فرماتے تھے کہ میں نے جب بھی اللہ کی نافرمانی کی ‘ اس کا اثر یا تو بیوی میں دیکھا ہے تو کبھی اولاد میں یا نوکروں میں یا پھر سواری کے جانور میں دیکھا ہے۔ آج اکثر والدین اپنی اولاد کی نافرمانی کی شکایات کرتے ہیں‘ بچے باپ سے ایسی نفرت کرتے ہیں جیسے پاپ سے کی جانی چاہئے۔ گناہ کی ایک سزاء تو آخرت میں ملتی ہے اور ایک سزاء دنیا میں بھی ملتی ہے۔ بجلی کے ننگے تار کو ہاتھ لگانے سے جھٹکہ لگتا ہے اسی طرح گناہ کرنے سے بھی پریشانی کاجھٹکہ لگتا ہے۔ پریشانیوں سے چھٹکارہ پانے ہم بھاگے پھرتے ہیں مگر رجوع الی اللہ نہیں ہوتے اور پھر اکثر عورتیں عاملین سے رجوع ہوجاتی ہیں جو عموماً توجہ کسی اور طرف کردیتے ہیں کہ تمہیں کسی رشتہ دار نے یا ہمسایہ نے کچھ کردیا ہے ۔کمزور عقیدہ کے باعث ہم لوگوں کو جھوٹا خدا بنادیتے ہیں جو نفع دے سکتا ہے اور نہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔ کسی نے ہمیں پریشان نہیں کیا ہوتا ہے بلکہ ہماری بد اعمالیوں نے ہمیں پریشان کررکھا ہوتا ہے۔ گناہ کی سزاء کی تین صورتیں ہوتی ہیں۔ تکیر اس میں نقد سزاء مل جاتی ہے۔ دوسری صورت تاخیر کی ہوتی ہے۔ اس میں سزاء تو ملتی ہے مگر تاخیر سے۔ انسان جوانی میں خواہش والی زندگی گذارتا ہے تو بڑھاپے میں اس کی بیوی نافرمان ہوجاتی ہے اور یہ دیکھا گیا کہ اولاد اکثر ماں کی طرفدار ہوتی ہے ۔ تاخیر میں جوانی کی کوتاہیوں کی سزاء بڑھاپے میں ملتی ہے۔ تیسری صورت اللہ کی خفیہ تدبیر ہوتی ہے۔ اس میں انسان لاکھ کوششیں کرنے کے باوجود پریشانیوں سے چھٹکارہ نہیں پاتا۔ نیکی سے انسان کا دل منور اور گناہوں سے سیاہ ہوجاتا ہے۔ دل کے سیاہ ہونے کی تین علامات ہیں۔ پہلی علامت گناہوں سے جھجھک دور ہوجاتی ہے۔ لڑکیاں غیر محرم سے بات کرنے میں عار محسوس نہیں کرتیں۔ دوسری علامت یہ ہے کہ نیکی کرنا بوجھ محسوس ہوتا ہے۔ تیسری علامت یہ ہے کہ نصیحت بری لگتی ہے۔ اسی طرح دل کے منور ہونے کی بھی تین علامات ہیں۔ نیکی کرنے والے بندہ کے چہرہ پر تازگی ہوتی ہے۔ دوسری علامت یہ ہے کہ دل میں سرور پیدا ہوتا ہے اور تیسری علامت یہ ہے کہ کاموں میں اللہ کی مدد ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گناہ کا بدلہ آگ میں جلنا ہے اور آگ دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک ندامت کی آگ ہوتی ہے اور دوسری جہنم کی۔ گناہ کرکے جو کوئی ندامت کی آگ میں نہیں جلے گا اسے یقیناً جہنم کی آگ میں جلنا پڑتا ہے۔ ہم تو ایسے ہیں کہ دھوپ کی گرمی برداشت نہیں کرپاتے پھر کیسے جہنم کی آگ برداشت کرپائیں گے۔ اسی لئے آج ہی گناہوں سے سچی اور پکی توبہ کرلیں۔