حیدرآباد: ہمارے ملک ہندوستان کو ہر دوسرے سال ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں کھانوں کا ایک لازمی جز پیاز کی قیمت یا تو اس قدر کم ہوجاتی ہے کہ کسان اپنی پیداوارکو مایوسی کی حالت میں سڑکوں پر ڈال دیتے ہیں یا پھر پیاز کی قیمت اس قدر بلند ہوجاتی ہے کہ اس سے عوام کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ یہ بحران ایک طویل عرصے سے عوام کو پریشان کر رہا ہے۔اس کے باوجود حکومتوں نے ایک مستقل پالیسی تیار کرنے کی بجائے وقتی انداز میں اپنا ردعمل ظاہر کرتی ہیں ۔
اس سال بھی پیازکی کاشت کے لئے بہتر علاقوں میں موسلا دھار بارش کی وجہ سے سربراہی کم ہوگئی ہے اور بیشتر میٹرو شہروں میں منافع بخش درمیانی افراد نے خوردہ قیمتوں کو دگنا سے بھی زیادہ کردیا ہے جس نے کچھ مقامات پر 100 روپے فی کلوسے بھی تجاوز کردیا ہے۔ ان حالات میں حکومت نے فوری طور پر برآمدات پر پابندی عائد کردی جس سے بنگلہ دیش اورجنوبی ایشیا کے متعدددیگرپڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچا ۔
سفارتی تعلقات پر زیادہ توجہ دئے بغیر سفیروں اور ہائی کمشنرز کو بھی درآمدات کے لئے عالمی منڈیوں میں اضافے کا کام سونپا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ اب پیاز کو کم سے کم ایک ماہ بعد ہی روانہ کیا جائے گا۔ ہندوستان ہر سال عام طور پر تقریبا 22 ملین ٹن (ایم ٹی) پیاز پیدا کرتا ہے اور اس میں سے تقریبا 15.5 ٹن پیاز ہندوستانی ہی استعمال کرتے ہیں لہذا قیمتوں کو مستحکم رکھنے اور کسانوں کو معاوضہ قیمت دینے کے لئے برآمدات لازمی ہیں۔ برآمدات پر پابندی نہ صرف ان پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو متاثر کرتی ہے جو ہندوستان کے زرعی تجارت پر انحصار کرتے ہیں ، بلکہ انھیں دوسرے قابل اعتماد سپلائرز کی طرف بھی دیکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔
ایک ہی وقت میں پیاز کا دوسرا سب سے بڑا پیدا کنندہ ہونے کے باوجود ہندوستان میں فی ہیکٹر میں تخمینی طور پر کم پیداوار کی شرح 6 سے 19 ٹن ہے جبکہ چین کے لئے 24 اور ترکی کے لئے 30 ٹن ہے۔ ملک کے محکمہ زراعت کو پیداوار میں بہتری لانے کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آئندہ کے لئے منصوبہ بندی کرنا کسی بھی سرکاری محکمہ میں مصروف عمل ہونا چاہئے لیکن لگتا ہے حکومت کے پاس پیاز کے بحران کو حل کرنے کا کوئی واضح منصوبہ نہیں ہے۔