Thursday, April 24, 2025
Homesliderہوٹلوں کو ملازمین کی قلت کا سامنا ، مینو سے کئی کھانے...

ہوٹلوں کو ملازمین کی قلت کا سامنا ، مینو سے کئی کھانے غائب

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد: لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد ہوٹلوں کی کشادگی تو ہوچکی ہے لیکن جہاں تجارتی نکتہ نظر سے ہوٹلوں کو گاہکوں کا انتظار ہے تو دوسری جانب گاہکوں کی خدمات کےلئے انہیں ملازمین کی قلت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، چونکہ بیشتر مزدور اپنے آبائی شہروں کے لئے روانہ ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ایرانی ہوٹلوں میں قلیل تعداد میں عملہ موجود ہے۔ ہوٹلوں نے یا تو مینو میں تخفیف کردی ہے یا پھر اپنے کھانے کو صرف پارسل تک محدود کردیا ہے ۔ بشیرباغ میں کیفے بہار کے منیجر محمد رضا نے کہا اگرچہ حکومت نے ہمیں رہنما خطوط کے ساتھ کاروبار چلانے کی اجازت دی ہے لیکن ہم اپنا کاروبار آسانی سے چلانے میں ناکام ہیں اور اب بھی ڈائننگ ہال بند ہے۔

ناگول کے لکی ہوٹل کے سید علی رضا نے کہا کہ ان کے ہوٹلوں کی زنجیر میں 200 کے قریب افراد روزگار سے جڑے  ہیں ۔ 50 چھوٹے چھوٹے کھانے پینے والوں اور 150 شہر کے ریستوران کے لئے ہیں۔ فی الحال ہر ہوٹل میں ایک درجن سے زیادہ ملازمین  کام نہیں کررہے ہیں۔ ملازمین کی اکثریت یوپی اور بہار روانہ ہوگئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا ہوٹلوں اور ریستورانوں میں مزدوروں کے بغیر ہم نے مینو میں پکوان کم کردیئے ہیں اور مقامی شیفوں کی مدد سے صرف مغلائی کھانوں کی تیاری کر رہے ہیں۔

ہوٹلز گرانڈ عابڈس کے سی ای او محمد جلیل ، تلنگانہ ہوٹل اونرز اسوسی ایشن کےرکن نے کہا کہ کورونا کے رہنما خطوط پر عمل کرتے ہوئے وہ اعلی ڈسپوزایبل کراکری میں کھانا پیش کر رہے ہیں اور بیٹھنے کی گنجائش کو 120 نستوں سے کم کرتے ہوئے 40 نشت کردیا گیا ہے۔ دیوان گروپ کے مالک شیخ محبوب  نے کہا کہ پہلے وہ تقریبا  25-30 بریانی (دونوں مٹن اور مرغی) دیگ تیار کرتے تھے اور اب وہ صرف 5-6 ہانڈیوں کی تیاری کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا اس طرح ہم اخراجات بھی برداشت نہیں کرسکتے ہیں اور نہ ہی کرایہ ادا کرسکتے ہیں۔

چھوٹے چھوٹے ہوٹل مالکان میں سے کچھ نے کہا کہ وہ خریداروں کے لئے صرف چائے اور ناشتے فروخت کررہے ہیں ، کیونکہ ان کے کاروبار میں بیشتر بیٹھنے کے انتظامات کے ساتھ چائے پیش کرنا شامل ہوتا ہے۔ پرانے شہر  میں محمد خواجہ نے کہا باگارا کھانہ ، نوڈلس ، پوری جیسے مقامی پکوان پیش کیے جارہے ہیں اور ہم دیگر پکوان تیار کرنے سے گریز کر رہے ہیں کیونکہ ملازمین کی کمی اور خاص کرباورچی حضرات اپنے آبائی مقامات جاچکے ہیں۔