Thursday, May 16, 2024
Homeدیگرنقطۂ نظرآپ کا بک بیلنس کتنا ہے؟

آپ کا بک بیلنس کتنا ہے؟

- Advertisement -
- Advertisement -

عابد معز

میں اہلِ کتاب ہوں اور اس پر فخر کرتا ہوں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کتابوں سے مجھے جنون کی حد تک عشق ہے!
چھوٹی بڑی، مختلف جسامت کی رنگ برنگے سرورق کی کتابیں مجھے بہت اچھی لگتی ہیں۔ انھیں میں اپنے اطراف پھیلائے رکھتا ہوں۔ پڑھنے کی میز پر اور پاس کے شیلف میں کتابیں تو رہتی ہی ہیں اور یہ کتابوں کی مناسب جگہ بھی ہے۔ ان مقامات کے علاوہ بھی میں کتابوں کو اِدھر اُدھر اور یہاں وہاں دیکھنا چاہتا ہوں۔ کتابوں کو میں کھانے کی میز پر بھی رکھتا ہوں۔ کھانے کے لیے نہیں بلکہ ذہنی غذا کے طور پر۔ کتابیں دیکھتے اور سرسری مطالعہ کرتے ہوئے میں کھانا کھاتا ہوں۔میرے بستر بھی کتابیں بکھری رہتی ہیں۔ میں انہیں سرہانے اور دائیں بائیں رکھتا ہوں۔ میرا بس چلتا تو میں کتابوں کو تکیہ کے طور پر استعمال کرتا لیکن مجبوری ہے۔ گردن میں درد کے سبب ڈاکٹر نے مجھے تکیہ استعمال کرنے سے منع کررکھا ہے اور تکیہ کے بغیر لیٹنے اور سونے کا مشورہ دیا ہے۔ مجھے اس مشورے سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ تکیہ کے بغیر مشکل سے نیند آتی ہے لیکن بعض کتابوں کا مطالعہ اگر کچھ دیر کرلوں تو مجھے آسانی سے نیند آجاتی ہے۔
گھر سجانے کے لیے میں کتابوں سے بہتر کسی شے کو نہیں سمجھتا۔ میں کتابوں کو الماریوں اور طاقچوں میں سجے اور ہر قسم کی میز پر کتابیں دیکھنا چاہتا ہوں۔ یہی نہیں، میں گھر کے ہر کونے میں اور فاضل جگہوں پر کتابیں سجائے رکھتا ہوں۔ میرا ایسا کرنا بیگم کو ایک نظر نہیں بھاتا۔ وہ گھر کے مختلف مقامات سے کتابیں اٹھاکر میرے کمرے میں پہنچاتی جاتی ہیں۔ میں کچھ کہتا یا کرتا بھی نہیں ہوں۔ مجھے غصّہ تو بہت آتا ہے لیکن کتابوں میں لکھا ہے کہ غصّے کو پی جانا شادی شدہ مرد ہونے کی نشانی ہوتی ہے۔
کتابوں سے میرے بے پناہ انس کا نتیجہ ہے کہ مجھے کتاب بین لوگ اچھے لگتے ہیں۔ ایسے لوگ خاموش کتاب پڑھتے ہوئے اپنے میں مگن رہتے ہیں۔ اکثر تو کتاب میں منہ چھپائے رکھتے ہیں۔ مجھے بھی کتابوں میں منہ چھپانا بھی اچھا لگتا ہے۔ کتاب بین لوگوں کی صحبت میں میرا دل لگتا ہے۔ میں ان لوگوں سے دوستی بھی کرتا ہوں۔ ان کے ساتھ کتابوں کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے پتہ ہی نہیں چلتا کہ کس طرح گھنٹوں گزر جاتے ہیں۔
کتابوں کی خوش بو مجھے پسند آتی ہے۔ کتابوں کی خوش بوئیں مختلف اقسام کی ہوتی ہیں۔ تازی اور پرانی کتابوں کی بو الگ ہوتی ہے۔ بند پڑی کتاب سے الگ قسم کی بو آتی ہے تو کھلی کتاب سے تازہ مہک آتی ہے۔ میں کتاب پڑھنے سے پہلے اسے سونگھ لیتا ہوں۔ کتابوں سے میری انسیت اور پسند کے سبب لوگ مجھے کتابی کیڑا کہہ گزرتے ہیں۔ مجھے یہ لقب پسند بھی آتا ہے۔
مجھے کتابی چہرے پسند ہیں کہ وہ کتابوں کی طرح ہوتے ہیں۔ پسند کی ایک دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ کتابی چہروں میں گنجائش بہت ہوتی ہے۔ ان چہروں میں آسانی سے لانبی ستون جیسی ناک، بڑی بڑی غزالی آنکھیں اور اونچی پیشانی سماسکتی ہے۔ ایسے کتابی چہروں سے مجھے عشق بھی ہوجاتا ہے لیکن شومئی قسمت کہ بیگم کتاب رو نہیں ہیں۔ وہ سوالی چہرہ رکھتی ہیں۔ ہردم ان کے چہرے پر کوئی نہ کوئی سوال رہتا ہے۔ کہاں گئے تھے؟ کیا کررہے ہو؟ ہنسے کیوں؟ کم کیوں کھایا؟ دیر سے کیوں آئے؟ یہ کتاب یہاں کیوں ہے؟ آپ ہردم کتابوں میں کیوں گھرے رہتے ہیں؟ آپ کو مجھ سے زیادہ کتابیں کیوں پسند ہیں؟
ایسے لوگ میرے آئیڈیل ہوتے ہیں جن کی زندگی کھلی کتاب کی طرح ہوتی ہے۔ ہر چیز عیاں، کچھ بھی چھپا نہیں ہوتا۔ باطن اور ظاہر ایک جیسا۔ زندگی مختلف عنوانات اور پیراگرافس میں بٹی ہوئی ہوتی ہے۔ مزید وضاحت اور تشریح کے لیے ایسے بعض لوگوں کی زندگی میں حوالے اور فٹ نوٹس بھی مل جاتے ہیں۔ اس کے باوجود دنیا والے ان لوگوں کو بین السطور پڑھ ہی لیتے ہیں۔
علم اور معلومات حاصل کرنے کے مختلف ذرائع ہیں۔ زبانی علم عام ہے جسے دیکھیے لیکچر کے ذریعہ علم بانٹتا نظر آتا ہے۔ اخبارات ہر صبح معلومات کی سوغات تقسیم کرتے ہیں۔ اشتہارات، ٹیلی وژن، فلم وغیرہ بھی ہماری معلومات اور علم میں اضافہ کرتے ہیں۔ ہاں علم کے حصول کا ایک ذریعہ کتابیں بھی ہے۔ میں علم اور معلومات کے مختلف ذرائع اور وسائل میں کتابوں کے ذریعہ علم حاصل کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ میرے نزدیک کتابی علم سب سے افضل اور برتر ہے۔ کتابیں نہ ڈانتی ہیں اور نہ ہی شورشرابہ کرتی ہیں۔ خاموشی سے تنہائی میں پڑھنے والے کی مرضی سے علم کی سوغات دیتی ہیں۔
میں اپنا زیادہ سے زیادہ وقت کتب خانہ یا کتابوں کی دکان پر گزارنا چاہتا ہوں۔ جب بھی وقت ملتا ہے میں کتب خانے کا رخ کرتا ہوں۔ وہاں ڈھیر ساری کتابوں میں اپنے آپ کو گھرا پاکر فرحت اور انبساط کا احساس ہوتا ہے۔ افسوس رہتا ہے کہ میں اپنا بیشتر وقت کتب خانوں میں گزار نہیں سکتا۔ زندگی میں دوسرے غیرکتابی کام کرنا جو پڑتے ہیں۔ میں لائبریرین سے اس لیے حسد کرتا ہوں کہ وہ زیادہ وقت کتابوں کے درمیان گزارتا ہے۔ کاش میں بھی لائبریرین ہوتا!
جب بھی جیب بھاری ہوتی ہے میں سیدھے کتابوں کی دکان پہنچ جاتا ہوں۔ کتابوں کی شاپنگ کرنے میں مجھے بہت لطف آتا ہے۔ کتابوں کی دکان والے مجھے پہچانتے ہیں۔ نادر اور نئی کتابیں میرے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ میں گھنٹوں کتب بازار میں گھومتا رہتا ہوں۔ قرض لے کر کتابوں کی شاپنگ کرنے سے بھی میں باز نہیں آتا۔ کتب بازار میں شاپنگ کرتے ہوئے میں خواتین کی شاپنگ کے ریکارڈس بھی آسانی سے توڑدیتا ہوں۔ کتابوں کی دکانوں میں گم ہوجاتا ہوں اور مالکین دکان بند کرتے وقت مجھے باہر کردیتے ہیں۔
پرانی کتابوں کی تلاش میں میں بھٹکتا پھرتا ہوں۔ میں نئی اور پرانی کتابوں میں فرق نہیں کرتا، میرے لیے کتاب کتاب ہوتی ہے۔ کتابوں کے حصول کی ہابی کی راہ میں میری جیب اکثر وبیشتر رکاوٹ بنتی ہے۔ میری جیب کتابوں کی بے تحاشہ شاپنگ کا بوجھ نہیں اٹھاسکتی۔ اس لیے میں دوسرے ذرائع سے بھی کتابیں اکٹھا کرتا ہوں ۔ مفت کتابیں حاصل کرنے میں میں پیش پیش رہتا ہوں۔ میرے یہاں موجود اکثر اردو کتابیں اسی طرح اکٹھا ہوئی ہیں۔ احباب سے مانگی ہوئی کتابیں اس وقت تک نہیں لوٹاتا جب تک ان کے اصرارمیں شدت نہیں آجاتی ۔
میری نظر میں کسی کو تحفہ دینے اور کسی سے تحفہ لینے کے لیے کتابوں سے بڑھ کر کوئی دوسری اہم اور قیمتی شے نہیں ہے۔ میں دوستوں سے تحفے میں کتابیں دینے کی فرمائش کرتا ہوں اور خوشی خوشی ان کے کتابی تحفوں کو قبول کرتا ہوں۔ دوست احباب سستے کتابی تحفے دینے میں پس وپیش بھی نہیں کرتے۔ جہاں تک میری بات ہے میں کسی کو بھی کتابوں کے علاوہ کوئی اور تحفہ دینا نہیں چاہتا۔ میں جتنی خوشی سے کتابوں کا تحفہ دیتا ہوں احباب اتنی ناگواری سے کتابوں کے تحفے کو قبول کرتے ہیں لیکن میں اس کی پرواہ نہیں کرتا اور اصرار کرکے کتابوں کا ہی کا تحفہ دیتا ہوں۔ بعض احباب تقاریب میں مجھے اس ڈر سے مدعو نہیں کرتے کہ میں تحفے میں کتاب دوں گا۔ میں اس بات کا برا نہیں مناتا۔ ان کو تحفے میں دی جانے والی کتاب کو اپنے پاس رکھ لیتا اور خوش ہوتا ہوں۔
دوست احباب سے ملاقات پر میں پہلے کتابوں کے حوالے سے چند سوالات کرتا ہوں اور پھر ان کی خیریت دریافت کرتا ہوں۔ احباب کو میرے سوالات ازبر ہوچکے ہیں۔ آپ نے حالیہ عرصہ میں کون سی کتابیں خریدی ہیں؟ آپ کے زیرمطالعہ کون سی کتاب ہے؟ کیا کوئی نئی کتاب آئی ہے؟ بعض احباب میرے ان سوالوں سے گھبراکر مجھ سے ملنے سے کترانے لگے ہیں۔ چند احباب مجھ پر رعب ڈالنے کی خاطر وزنی کتابیں لے آتے ہیں۔ کتابوں کا بوجھ ڈھونا مجھے اچھا لگتا ہے۔ میں ان کے ہاتھوں سے کتابیں تھام کر فوراً اپنے بستہ میں رکھ لیتا ہوں۔ ہر وقت کتابیں ڈھونے کے لیے مضبوط بستے بھی میں اپنے ساتھ رکھتا ہوں۔
دوست احباب کے گھر جاتا ہوں تو وہاں کتابوں کو ضرور تلاش کرتا ہوں۔ میری نظر کتابوں پر پڑتی ہے تو میں خوش ہوجاتا ہوں۔ کتابوں کی تعداد کے لحاظ سے مجھے مسرت حاصل ہوتی ہے۔ چند کتابیں ہوں تو تھوڑی خوشی ہوتی ہے۔ زیادہ کتابیں ہوئیں تو میں خوش ہوتا ہوں اور بہت زیادہ کتابیں بہت زیادہ خوشی اور مسرت کا باعث ہوتی ہیں۔ میں وقفہ وقفہ سے اپنی خوشی کا اظہار کرتا رہتا ہوں کہ مجھے آپ کے گھر آکر بہت مسرت ہورہی ہے۔ جس گھر میں کتابیں دکھائی نہیں دیتیں میں ان سے تقریباً الجھ پڑتا ہوں۔ ’آپ کے گھر میں کتابیں کیوں نہیں ہیں؟ کیا آپ کو پڑھنا نہیں آتا؟ کیا آپ کو کسی ڈاکٹر نے مطالعہ کا پرہیز بتایا ہے؟ کیا آپ کی بینائی کمزور ہے؟ اور اگر آپ کے ساتھ ایسی کوئی مجبوری نہیں ہے تو پھر آپ کے گھر میں کتابیں کیوں نہیں ہیں؟مہمان کا خیال کرتے ہوئے اکثرصاحب خانہ خاموش رہتے ہیں لیکن بعض کہہ بھی دیتے ہیں۔ ’ہماری مرضی۔ ہم گھر میں کتابیں نہیں رکھتے۔ یہ گھر ہے لائبریری نہیں ہے، جو ہم کتابیں رکھیں۔ آپ کو کتابوں کی تلاش ہے تو لائبریری جائیے ، ہمارے گھر مت آئیے۔‘
چند دن قبل میں اپنے ایک شناسا کے گھر مدعو تھا۔ ان کے گھر مجھے ڈھیرساری کتابیں سلیقے سے الماریوں میں سجی نظر آئیں۔ بہت خوشی ہوئی۔ میں نے اپنی خوشی کا اظہار یوں کیا۔ ’آپ کا بک بیلنس بہت شاندار ہے۔ کم لوگوں کے پاس ایسا خزانہ ہوتا ہے۔‘
’حیرت ہے!‘ میرے میزبان نے سوال کیا۔ ’آپ کو کیسے پتا چلا؟‘
’میں نے آپ کی کتابیں دیکھی ہیں۔‘ میں نے جواب دیا۔
’کتابیں دیکھ کر آپ کو میرے بینک بیلنس کا اندازہ کیسے ہوا؟‘ موصوف نے مزید حیرت سے دریافت کیا۔
میں نے موصوف کی غلط فہمی دور کی۔ ’جناب والا بینک بیلنس نہیں، میں نے آپ کے بُک بیلنس یعنی کتابوں کے ذخیرے کی تعریف کی ہے۔‘
’بک بیلنس، بہت خوب۔‘ موصوف نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’میں سمجھا آپ بینک بیلنس کی بات کررہے ہیں۔‘
’میں تو بک بیلنس کی بات کررہا تھا لیکن میں بُک بیلنس سے آپ کے بینک بیلنس کا بھی اندازہ کرسکتا ہوں۔ آپ کا بینک بیلنس بُک بیلنس سے کم ہوگا۔ دونوں ساتھ نہیں چل سکتے۔‘ میں نے انھیں اپنا مشاہدہ بتایا۔
بینک بیلنس اور بک بیلنس میں تھوڑی بہت مماثلت پائی جاتی ہے۔ صرف بیلنس زیادہ ہونے سے فائدہ نہیں ہوتا۔ اس بات سے فرق پڑتا ہے کہ آیا یہ بیلنس سیونگ یا کرنٹ اکاؤنٹ میں ہے۔ اگر یہ بیلنس بچت کھاتے میں ہے تو جمع بندی کی عادت پڑجاتی ہے۔ کتابیں اکٹھا ہوتی رہتی ہیں۔ بعض کتابیں بالخصوص مذہبی کتابیں فکسڈ ڈپازٹ کی طرح ہوتی ہیں۔ ان کا استعمال بہت کم اور مخصوص موقعوں پر ہی ہوتا ہے۔ کتابیں رکھی رکھی خراب ہوجاتی ہیںیا جھینگر یا دیمک کی غذا بن جاتی ہیں۔ ٹھیک اسی طرح اگر سیونگ اکاؤنٹ طویل عرصہ کے لیے استعمال میں نہ رہے تو اسے ڈیڈ اکاؤنٹ بنادیا جاتا ہے۔
بک بیلنس کا فائدہ کتابوں کے مطالعہ سے ہوتا ہے۔ اس لیے کتابوں کا کرنٹ اکاؤنٹ ہونا چاہیے۔ کتابیں بند نہیں پڑی رہنی چاہیءں، انہیں مطالعہ میں رہنا چاہیے۔ اپنا اور دوسروں کا بھلا ہوتا ہے۔ کتابوں کا کرنٹ اکاؤنٹ ہونے سے اوورڈرافٹ کی سہولت رہتی ہے۔ کتابیں پڑھتے رہنے سے ہماری سوجھ بوجھ اور سوچ بہتر ہوتی ہے۔
کتابوں پر اتنی سمع خراشی کرنے کے بعد قارئین میں مجھے ایک ذاتی سوال کرنے کی اجازت دیجیے۔ آپ نے اجازت مرحمت فرمائی، شکریہ۔ میرا سوال ہے۔ ’آپ کا بُک بیلنس کتنا ہے؟‘
* * *