Wednesday, May 15, 2024
Homesliderاپوزیشن کے ہنگامے کے سبب ایوان کی کارروائی دن بھر کے لئے...

اپوزیشن کے ہنگامے کے سبب ایوان کی کارروائی دن بھر کے لئے ملتوی

- Advertisement -
- Advertisement -

نئی دہلی۔ راجیہ سبھا میں اپوزیشن اور حکمراں پارٹی اپنے اپنے موقف پر ڈٹی رہی جس کی وجہ سے آج کوئی کام یاکارروائی نہیں ہو سکی کیونکہ دوپہر کے وقفے کے بعد کارروائی دن بھر کے لیے ملتوی کرنی پڑی۔ ظہرانہ کے بعد جیسے ہی ایوان کی کارروائی دوبارہ شروع ہوئی، ڈپٹی چیئرمین ہری ونش نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے سید ظفر اسلام کو اومی کرون پر بحث شروع کرنے کے لیے پکارا۔
اسی دوران راجیہ سبھا میں کانگریس کے ڈپٹی لیڈر آنند شرما اور سینئر ممبر جے رام رمیش نے کچھ کہنا چاہا۔ اس کے ساتھ ہی کانگریس، عام آدمی پارٹی، راشٹریہ جنتا دل، ڈی ایم کے اور ترنمول کانگریس کے ارکان اپنی نشستوں سے کھڑے ہو کر پوڈیم کی طرف بڑھنے لگے ۔ ہری ونش نے کہا کہ اومی کرون جیسے اہم مسئلہ پر بحث کی اپوزیشن نے ہی درخواست کی تھی اور اس کے بعد یہ بحث شروع ہوئی لیکن اب اپوزیشن اس پر بحث نہیں ہونے دے رہی ہے ۔ یہ بہت سنجیدہ موضوع ہے ۔ انہوں نے بار بار ارکان سے اپیل کی کہ وہ اپنی جگہوں پر لوٹ جائیں۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن ارکان دوسرے ارکان کے حقوق کی پامالی نہ کریں اور اس اہم معاملے پر بات ہونے دیں۔ اپوزیشن ارکان پر ان کی اپیل کا کوئی اثر نہ ہوا اور وہ پوڈیم کے قریب آکر کچھ کہنے لگے ۔ اس دوران انہوں نے ایوان کی کارروائی دن بھر کے لیے ملتوی کر دی۔
اس سے قبل بھی صبح جب کارروائی شروع ہوئی اور چیئرمین نے وقفہ صفر شروع کرنے کی کوشش کی تو ایوان میں اپوزیشن لیڈر ملکارجن کھڑگے کھڑے ہوگئے اور اپوزیشن کے ارکان نعرے لگاتے ہوئے پوڈیم کی جانب بڑھنے لگے ۔ صورتحال کو دیکھتے ہوئے چیئرمین نے ایوان کی کارروائی2 بج کر12 منٹ تک ملتوی کر دی۔
اپوزیشن اور حکمران جماعت کے اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کے باعث گزشتہ دو روز بھی ایوان میں کوئی کام نہیں ہوسکا۔ اپوزیشن جماعتیں راجیہ سبھا سے معطل کیے گئے 12 اراکین کی معطلی ختم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں، جب کہ حکمراں جماعت کا موقف ہے کہ پہلے ان اراکین کو اپنے طرز عمل پر معافی مانگنی چاہیے ۔ اس کے علاوہ وزیر مملکت برائے داخلہ اجے مشرا کے استعفیٰ کے سلسلے میں بھی اپوزیشن ارکان حکومت پر وار کررہے ہیں۔ اس معاملے میں حکومت نے کہا ہے کہ یہ معاملہ ابھی سپریم کورٹ میں زیر غور ہے اس لیے استعفیٰ کا مطالبہ بے بنیاد ہے ۔