Thursday, May 16, 2024
Homeدیگرنقطۂ نظرایسے کتنے ہندستانی ہیں جو رام جیٹھ ملانی کی طرح اپنی غلطیوں...

ایسے کتنے ہندستانی ہیں جو رام جیٹھ ملانی کی طرح اپنی غلطیوں کا اعتراف اور اس کاازالہ کریں؟

کاش کہ بی جے پی اور نریندر مودی کی وکالت جس زور و شور سے کی گئی تھی اگر اتنی ہی شدت سے مخالفت کی جائے تو کم ازکم یہ تو پتہ چل جائے گا کہ عوام کو زیادہ دنوں تک بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ اگر یہ لوگ خاموشی اختیار کرلیتے ہیں اور کھل کر مخالفت نہیں کرتے ہیں تو آئندہ انتخابات میں اگر الکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی پروگرامنگ کے ذریعہ امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کیا جائے گا تو دنیا کو یہی پیام جائے گا کہ ہندستانیوں کو بڑی آسانی سے بے وقوف بنایا جاسکتا ہے اور انہیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا۔

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد۔ہندستانیوں کا ایک طبقہ اب بھی ایسا ہے جس کا یہ ماننا ہے کہ انتخابی نتائج ، عوام کے خط اعتماد کے عکاس نہیں ہیں چونکہ الکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی پروگرامنگ کے ذریعہ من مانی نتائج حاصل کئے جاتے ہیں۔یہ اور بات ہے کہ عوام کی اکثریت جن میں سیاسی پنڈت بھی شامل ہیں، برآمدانتخابی نتائج کے لئے مختلف عوامل و رجحانات کی اثرپذیری کے ثبات تلاش کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے پروپگنڈہ، انتخابی منشور اور امیدواروں کے پیش نظر رائے دہندے اپنا ذہن بناتے ہیں، کچھ تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو سیاسی وابستگی نہ رکھتے ہوئے بھی کسی ایک سیاسی پارٹی کے نظریات و افکار کا پروپگنڈہ اور اس پارٹی کا دفاع کرنے لگتے ہیں۔ ایسے لوگ ملک میں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں ہیں۔ایسے لوگ کوئی نادان یا بے وقوف نہیں ہوتے ہیں بلکہ وہ سیاسی قائدین کے مکارانہ باتوں اور سیاسی پارٹیوں کے دل خوش کن وعدوں کے فریب میں آجاتے ہیں ۔ کچھ سیاسی قائدین عوام میں اپنی ایسی امیج بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ لوگ انہیں اپنا مسیحا سمجھنے لگتے ہیں۔
ایسے ہی کچھ 2014 کے انتخابات کے وقت ہوا تھا۔ ملک کا ایک بڑا طبقہ جن میں دانشور اور قابل لوگوں کی بڑی تعداد شامل تھی، نریندر مودی اور بی جے پی کے فریب کاشکار ہوگئے اور بدعنوانیوں کے خاتمہ اور ملک کی ترقی کے لئے ایک صاف و شفاف نظم و نسق کی امید میں بی جے پی کے وکیل بن گئے تھے ،سب کا ساتھ سب کا وکاس جیسے نعرے اور کالے دھن کو ملک واپس لانے جیسے وعدوں پر بہت سے لوگوں نے ایسا یقین کیاجیسے کوئی آسمانی باتیں ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ ملک میں ایسا ماحول پیدا ہوگیا تھا کہ بی جے پی کو ناقابل تسخیر سمجھا جانے لگا اور ہوا بھی ایسا ہی ۔ گذشتہ تین دہوں میں پہلی مرتبہ ایک پارٹی کو قطعی اکثریت حاصل ہوگئی۔ شائد نریندر مودی کی باتوں پر اس لئے یقین کرلیا گیا کہ وہ اپنے خاندان سے جداہیں۔ وہ اپنی بیوی کو چھوڑ بیٹھے ہیں اور ماں کو بھی وہ اپنے ساتھ نہیں رکھتے۔ ایک تنہا آدمی کچھ کرے گا بھی تو کس کے لئے مگر لوگوں نے دیکھ لیا کہ نریندر مودی نے بہ حیثیت وزیر اعظم اپنی ہر خواہش کو پورا کرلیا اور سرکاری خرچ پراپنی ذات پر اتنا کچھ خرچ کرلیا کہ اب تک کسی بھی وزیر اعظم نے اپنے سارے خاندان کے لئے بھی خرچ نہیں کیا ہوگا۔ہندستانیوں کو تو بی جے پی کے اقتدار میں آجانے کے بعد یہ پتہ چلا کہ ہر شہری کے اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپے جمع کروانے کا وعدہ محض ’’ایک جملہ‘‘ تھا۔ وہ رائے دہندے جو اپنی آنکھوں میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا خواب سجائے ہوئے تھے ، یہی سمجھتے رہے کہ نریندر مودی جو کٹر ہندووادی ہیں وہ ضرور رام مندر تعمیر کردیں گے مگر انہیں بھی سخت مایوسی ہوئی اس کے باوجود یہ طبقہ ہنوز نریندر مودی اور بی جے پی کا ہمنواء بنا ہوا ہے اس آس میں کہ بی جے پی کے اقتدار میں ہندؤں کو اس ملک میں برتری حاصل ہوگی ۔تاہم کچھ لوگ ایسے ہیں جنہیں اب یہ احساس ہونے لگا ہے کہ وہ بے وقوف بنائے گئے ہیں اور نریندر مودی بھی بالآخر ایک سیاستداں ہی ہیں جو اقتدارحاصل کرنے کے لئے جھوٹ، فریب اور مکاری کا سہارا لیا ہے ۔ ایسے ہی لوگوں میں ملک کے نامور قانون داں مسٹر رام جیٹھ ملانی ہیں جنہوں نے نریندر مودی اور بی جے پی پر یہ سوچ کر بھروسہ کیا تھا کہ وہ ملک کے نظم و نسق میں انقلابی تبدیلی لائیں گے اور بدعنوانیوں سے پاک حکومت کریں گے، مگر انہیں جلد ہی احساس ہوگیا کہ نریندر مودی میں ایک مثالی وزیراعظم کو دیکھنا ان کی بھول تھی ۔ وہ اب سمجھ گئے کہ انہیں بے وقوف بنایا گیا ہے۔ مسٹر رام جیٹھ ملانی چونکہ مخلص تھے اسی لئے انہیں بی جے پی اور نریندر مودی کی دھوکہ دہی پر آواز اٹھانے میں دیر نہیں لگی۔ ایک بڑے انسان کی یہ بھی خوبی ہوتی ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کی تاویلات پیش کرنے کی بجائے اعتراف کرلیتے ہیں کہ ان سے بھول ہوگئی تھی۔ بڑے لوگوں کی ایک اور نشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنی غلطی اور بھول کااعتراف کرنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ اس کا ازالہ کرنے کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کردیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مسٹر رام جیٹھ ملانی نے پیرانہ سالی نہ صرف کالے دھن کو ملک واپس لانے کا بیڑہ اٹھایا ہے بلکہ بی جے پی کو بے نقاب کرنے کے لئے مستعد ہوچکے ہیں۔ وہ اب برملا اظہار کررہے ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی صدر امیت شاہ نے انہیں بے وقوف بنایا ہے اور ان کی باتوں پر بھروسہ کرنا ان کی نادانی تھی تاہم انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ 1400 متمول ہندستانیوں کی جانب سے بیرون ملک ذخیرہ کردہ 90 لاکھ کروڑ روپے کالے دھن کی واپسی کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھیں اور بی جے پی کو بے نقاب کرکے رہیں گے۔
آج اتنا ضرور ہوا ہے کہ جن مخلص لوگوں نے نریندر مودی اور بی جے پی کے وعدوں اور دعوؤں پر بھروسہ کیا تھا اب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہونے لگا ہے مگر ان میں اکثر لوگوں میں اتنی جرأت نہیں ہے کہ وہ اپنی غلطی اور نادانی کابرملا اظہار کریں۔ یہ لوگ اگرچہ خاموشی اختیار کرلئے ہیں مگر معلوم نہیں وہ اپنی خاموشی توڑیں گے بھی یا نہیں ۔ کاش کہ بی جے پی اور نریندر مودی کی وکالت جس زور و شور سے کی گئی تھی اگر اتنی ہی شدت سے مخالفت کی جائے تو کم ازکم یہ تو پتہ چل جائے گا کہ عوام کو زیادہ دنوں تک بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ اگر یہ لوگ خاموشی اختیار کرلیتے ہیں اور کھل کر مخالفت نہیں کرتے ہیں تو آئندہ انتخابات میں اگر الکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی پروگرامنگ کے ذریعہ امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کیا جائے گا تو دنیا کو یہی پیام جائے گا کہ ہندستانیوں کو بڑی آسانی سے بے وقوف بنایا جاسکتا ہے اور انہیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا۔