Friday, May 17, 2024
Homeٹرینڈنگاین آرسی کا بڑھتا طوفان ،مسلمانوں میں خوف کی لہر

این آرسی کا بڑھتا طوفان ،مسلمانوں میں خوف کی لہر

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد ۔حالیہ دنوں میں دُور دور سے گرج اور چمکنے کی آوازیں آرہی تھیں لیکن اب یہ آوازیں ایک بھیانک طوفان میں تبدیل ہوچکی ہیں جو بالآخر ہندوستان کو تباہ کرسکتا ہے۔ یہ طوفان کچھ اور نہیں بلکہ شہریت سے متعلق قوانین میں ترمیم کرنے کا ایک نظریہ ہے جو بی جے پی ہندوستان میں نافذ کرنا چاہتی ہے اور اس کے ذریعہ صرف مخصوص مذہب کے ماننے والوں کو ہندوستان میں اپنی شہریت ثابت کرنی ہوگی۔

شہریت بل کو بی جے پی نے 2019ءکی انتخابی مہم میں آسام میں زور و شور سے استعمال کیا تھا اور یہ تصور کیا جارہا تھا کہ شاید انتخابات میں کامیابی کے بعد حکومت کا یہ نعرہ برف دان کی نذر ہوجائے گا لیکن انتخابات میں کامیابی کے بعد آسام کے علاوہ دیگر ریاستوں میں بھی نیشنل رجسٹر آف سٹیزن شپ (این آر سی) کو وسعت دینے کی بات کی جارہی ہے اور حکومت کو پورا یقین ہے کہ وہ اس مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچائے گی۔

 ابتداءمیں اسے صرف انتخابی مہم کیلئے استعمال کیا جانے والا ہتھکنڈہ تصورکیا جارہا تھا لیکن اب سب پر عیاں ہوچکا ہے کہ شہریت ترمیمی بل (سی اے بی) اور این آرسی دونوں کو متعارف کروانے میں بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتیں پرعزم ہیں۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں واضح کردیا ہے کہ ہندوستانی سرزمین کے ہر مربع انچ سے ہر درانداز کو ہندوستان بدرکیا جائے گا اور حکومت اپنے اس مقصدکو پورا کرنے کیلئے پرعزم ہے۔

اس کے علاوہ ریاستوں کو بھی ہدایت دے دی گئی ہے کہ وہ غیرملکیوں کیلئے حراستی مراکز تیار کریں اور اس طرح ریاستوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے سی اے بی کو یقینی بنانے کے لئے اپنے عزم کی تصدیق کریں۔ یہی نہیں بلکہ شمال مشرق ریاستوں کے چیف منسٹرس اور قائدین نے این آر سی کو اپنی ریاستوں میں نافذ کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ حکومت جہاں این آر سی اور دیگر اس طرح کے قوانین پیش کرنے کیلئے پرعزم ہے تو دوسری جانب آر ایس ایس موہن بھاگوت نے ہندوؤں کو یقین دلایا ہے کہ این آر سی کے ذریعہ انہیں کسی طرح کا کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا، جس کا واضح مطلب ہے کہ بنگال، بہار اور اترپردیش کے علاوہ اُن علاقوں میں مسلمانوں کیلئے حالات مشکل ہوجائیں گے ۔

ان حالات کے پیش نظر مذکورہ ریاستوں کے مسلم باشندوں میں خوف و ہراس کا ماحول پایا جارہا ہے۔ لوگ شدت سے پوچھ رہے ہیں کہ ہندوستانی شہریت ثابت کرنے کیلئے کن دستاویزات کا ثبوت دینا ہوگا اور کن دستاویزات کی ضرورت ہوگی اور جو لوگ دستاویزات ثابت کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو ان کیلئے نتائج کیا ہوں گے۔ اس معاملے پر حکومت اور حکمراں کوئی واضح رہنمایانہ اصول ثابت نہیں کررہے ہیں بلکہ خوف وہراس کا ماحول مزید گہرا کررہے ہیں جس کی وجہ سے تجسس اور الجھن دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔ یہاں تک کہ ہندوستان کے دارالحکومت دہلی کے بھی ہزاروں بے گھر افراد جوکہ مسلمان ہیں، یہ پوچھنے پر مجبور ہیں کہ ہمارا مستقبل کیا ہوگا؟ کیونکہ ان کے پاس کوئی دستاویزات نہیں ہیں۔ اس لئے بھی الجھن پائی جارہی ہے کیونکہ جو شہریت ثابت کرنے کیلئے اپنے دستاویزات پیش نہیں کرسکتے، ان میں صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی سخت رویہ اختیار کیا جارہا ہے۔

آزادی کے بعد 40 برسوں تک یعنی 1987ءتک ہندوستان میں پیدا ہونے والا کوئی بھی شخص ہندوستانی شہری سمجھا جاتا ہے لیکن 1987ءمیں قانون میں ترمیم کی گئی جس کے بعد کسی شخص کے ماں یا باپ کا ہندوستانی ہونا اس کی شہریت کیلئے ضروری تصور کیا جانے لگا۔ جبکہ 2003ءمیں کوئی شخص صرف اسی صورت میں ہندوستانی شہری بن سکتا ہے جب اس کے والدین ہندوستانی ہوں ، نہ کہ ان دونوں میں کوئی ایک غیرقانونی تارکین وطن ہو۔

 شہریت قانون میں وقتاً فوقتاً کی جانے والی ترامیم سے مسلمانوں میں ایک قسم کا خوف پایا جارہا ہے ۔ اس ترمیم کا بنیادی مقصد یہ سمجھ میں آتا ہے کہ این آر سی کا مسلمانوں کے علاوہ دوسرے لوگوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ باقی تمام مذاہب کے ماننے والے افراد ہندوستانی شہریت کے اہل ہوں گے یہاں تک کہ اگر وہ دستاویزات پیش کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے تو بھی انہیں مسائل کا سامنا کرنا نہیں پڑے گا۔

مسلمانوں میں یہ الجھن بھی پائی جاتی ہے کہ ازخود شہری بننے کیلئے کونسے سال تک کی پیدائش قابل قبول ہے جس میں کوئی کہتا ہے کہ 1947ئ، کوئی کہتا ہے کہ 1951ءاور کوئی کہتا ہے کہ 1971ءلیکن حقیقت میں 1987ءکا ایک ایسا ہندسہ ہے جس کے ساتھ قانون منسلک ہے۔ این آر سی اور سی اے بی کے بعد عملی طور پر یہ بات طئے ہوگی کہ جو افراد اپنی شہریت ثابت کرنے میں ناکام ہوں گے اس کے علاوہ ان کے آباءو اجدادکو قانونی طور پر ہندوستان میں داخل ہونے یا پھر وہ غیرقانونی طور پر ہندوستان میں سکونت اختیار کرنے جیسے سوالات لگ جائیں گے۔

سپریم کورٹ نے پہلے ہی شہریت ثابت کرنے کیلئے پیدائش کا صداقت نامہ، زمین کی ملکیت یا رائے دہندگی کے حق کو ثابت کرنے والے دستاویزات کو بنیاد بنایا ہے اور انہیں اپنی شہریت ثابت کرنے کا موقع دینے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن اس کے باوجود انتہائی غریب اورکمزور طبقہ اور پسماندہ علاقوں کے شہریوں کو ایسے دستاویزات کا پیش کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ اس معاملے کو مزید پیچیدہ کرنے کیلئے امیت شاہ کے ماتحت دیگر وزراءنے ہر ریاستی حکومت یہاں تک کہ ضلعی مجسٹریٹ کو مطلع کیا ہے کہ وہ غیرملکیوں کے ٹربیونلس قائم کرنے، اپنے طریقہ کار اور ثبوت کے معیارات کو ترتیب دینے کا طریقہ کار اختیار کریں۔

 مرکزی حکومت پرعزم ہے کہ وہ راجیہ سبھا میں سی اے بی کو کامیاب کروالے گی جس کے ذریعہ اسے قوم کو تقسیم کرنے کا جو نظریہ ہے، اسے نافذ کرنے میں آسانی ہوگی اور اس کا راست اثر مسلمانوں پر پڑے گا جنہیں مصائب میں مبتلا کرتے ہوئے خود ہندوستان میں انہیں بیرونی شہری ثابت کیا جائے گا۔ مہاتما گاندھی، بی آر امبیڈکر، جواہر لال نہرو اور مولانا آزاد سے ہندوستانیوں کو جو ملک وراثت میں ملا تھا، وہ ایک ایسا ملک ہے جہاں حق مساوات کو پہلی ترجیح دی گئی تھی ، بھلے ہی وہ کسی بھی مذہب یا کسی بھی دیوتا کی پرستش کیوں نہ کرتا ہوں لیکن 100 سال پہلے ہندو مہا سبھا اور 1925ءمیں آر ایس ایس نے جس ہندوستان کا تصور دیا، وہ ایک ایسا ملک ہے جس میں ہندو راج کریں گے اور انہیں کا غلبہ ہوگا۔

 یہ ایک ایسا ملک ہوگا جس میں مسلمانوں کو ملک بدر کردیا جائے گا یا پھر انہیں دوسرے درجہ کے شہری کی حیثیت سے رہنے پر مجبور کردیا جائے گا۔ موجودہ حکومت کو اب یہ یقین ہونے لگا ہے کہ100 سال پہلے انہوں نے جس ہندوستان کا خواب دیکھا تھا اب اسے حاصل کرنے کا وقت آگیا ہے ۔ سی اے بی کے بعد پورے ملک میں این آر سی کو نافذ کرتے ہوئے صرف مسلمانوں کو اپنی شہریت ثابت کرنے پر مجبور کیا جائے گا جس سے لاکھوں مسلمانوں میں ملک بدر ہونے اور دیگر مصائب میں مبتلا ہونے کا خوف بڑھ رہا ہے۔