Saturday, May 18, 2024
Homeٹرینڈنگاین آر سی کے خلاف جیل بھرو احتجاج شروع کیا جائے :...

این آر سی کے خلاف جیل بھرو احتجاج شروع کیا جائے : محمود

- Advertisement -
- Advertisement -

نئی دہلی ۔ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے ) ، نیشنل پاپولیشن رجسٹریشن(این پی آر)،نیشنل رجسٹر آف سیٹزنز (این آر سی) کے خلاف قومی سطح پر جیل بھرو احتجاج شروع کیاجائیگا۔ سپریم کورٹ کے معروف وکیل محمود پراچہ نے یہ بات کہی ہے۔ محمود پراچہ نئی دہلی کے ابوالفضل انکیفلو میں واقع مسجد ِ شان ِ الہی میں منعقدہ ایک اجلاس عام سے خطاب کررہے تھے۔ محمود پراچہ نے کہا کہ شہریت ترمیمی قانون ، این پی آر اور این آرسی کے خلاف جاری احتجاجی مظاہروں کو نئی جہت بخشنے کی خاطر اب ملک گیر سطح پر جیل بھرو احتجاج شروع کیاجانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جیل بھر و احتجاج کو کامیاب بنانے کے لیے ہر ایک مسجد کمیٹی کے تحت ایک اور کمیٹی تشکیل دی جانی چاہیے اور این پی آرکے انداراج کر نے کے لیے آنے والے سرکاری ملازمین سے یہ کمیٹی سوال وجواب کریگی اور ضرورت پڑنے پر یہ کمیٹی کے ارکان اجتماعی طورپرجیل بھرو احتجاج کرینگے۔ محمود پراچہ نے کہا کہ دستور ہند میں دیئے گئے جمہوری حقوق کا استعمال کرتے ہوئے ایک منظم انداز میں جیل بھرو احتجاج کو کامیاب بنایاجانا چاہیے۔

مسجد شان ِ الہی میں خطاب کے دوران محمود پراچہ نے کہا کہ کسی بھی محلہ میں این پی آرکا اندراج کرنے کے لیے آنے والے افراد کو شہریان مسجد کو بھیج دیں اور مساجد کے کمیٹیاں سرکاری ملازمین سے بات کرکے انہیں بتائیں کہ عوام این پی آر کے تحت اپنی کوئی بھی تفصیل فراہم نہیں کرینگے۔ محمودپراچہ نے کہاکہ این پی آر کا اجتماعی بائیکاٹ کرتے ہوئے مرکزی حکومت کے منصوبوں کو ناکام بنایاجاسکتاہے۔ انہوں نے کہا کہ این پی آرمیں تفصیلات فراہم کرنے اور دستاویزات دینے کے بعد باوجود بھی پسماندہ طبقات، قبائلی طبقات اور مسلمانوں کی شہریت برقرار نہیں رہے گی۔ اس لئے عوام کو چاہیے کہ وہ اجتماعی طورپر این پی آرکا بائیکاٹ کریں۔ محمود پراچہ نے کہا کہ ملک کی مختلف ریاستوں میں علاقائی سیاسی جماعتوں نے این پی آر کی مخالفت کرنے کا فیصلہ کیاہے اسی لیے ان ریاستوں کے عوام بھی این پی آر کا بائیکاٹ کریں گے اور این پی آرکا بائیکاٹ کرنے پر کسی کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں کی جاسکتی ہے۔

محمود پراچہ نے کہا کہ کسی بھی انسان کو پیدا ہوتے ہی شہریت مل جاتی ہے اور پیدائش کے بعد کسی بھی انسان کو شہریت ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہ تو حکومت کسی کو شہریت دے سکتی اور نہ لے سکتی ہے کیوںکہ پیدا ہونے کے ساتھ ہی انسان کو ملک کی شہریت مل جاتی ہے اور حکومت کو کسی سے بھی شہریت پوچھنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ محمود پراچہ نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہونے والے آسام این آر سی سے جن افراد کے نام خارج کیے گئے ہیں وہ نہ تو بنگلہ دیشی اور نہ درانداز ہیں بلکہ وہ بنگال کے شہری ہے۔ انہوں نے کہا کہ این آرسی کوناکام ہوتا دیکھ حکومت نے شہریت ترمیمی قانون کو متعارف کروایاہے۔ شہریت ترمیمی قانون کے ذریعہ ہندووں ، دلتوں اور پسماندہ طبقات کو دھوکہ دیاجارہاہے کہ انہیں این آرسی میں نام شامل نہیں ہونے پر بھی شہریت دی جائیگی جبکہ شہریت ترمیمی قانون کے تحت ملک کہ ایسے قریب ہندووں ، دلت ، اور پسماندہ طبقات کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ہندوستانی شہری نہیں بلکہ پاکستان، افغانستان ، بنگلہ دیش سے دراندازی کرکے ہندوستان میں داخل ہوئے ہیں۔

محمو د پراچہ نے کہا کہ این پی آرکا بائیکاٹ کرنے کے لیے سب کو ایک ساتھ آنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہریت ترمیمی قانون ، این آرسی اور این پی آر سے ہونے والے نقصان سے ہندووں کو واقف کروایا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ شہریت ترمیمی قانون کے مخالفت میں احتجاج کرنے پر لکھنوسمیت اترپردیش کے دیگرشہروں میں یوگی حکومت کی جانب سے مسلمانوں پر ظلم وبربریت کا مظاہرہ کیاگیاہے اور دہلی میں پولیس کی لاپرواہی سے حالات کو خراب کیاگیا ہے۔ قانونی جدوجہد کرتے ہوئے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ اور اترپردیش کے چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ کو جیل بھیجنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہریت ترمیمی قانون ، این آرسی اور این پی آر کے خلاف اصل جنگ اترپردیش میں ہوگی اور اسلئے اترپردیش کے تمام علاقوں میں عوام میں شعور بیدار کرنے کی کوششیں کی جارہی ہے۔