Saturday, May 18, 2024
Homeٹرینڈنگاین آر سی کے خلاف مسلمانوں کو سیول نافرمانی تحریک شروع کرنے...

این آر سی کے خلاف مسلمانوں کو سیول نافرمانی تحریک شروع کرنے  کا مشورہ

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد۔ ان دنوں اخبارات اور ٹی وی چینلز پر این آر سی کا موضوع کافی گرما گرم ہے اور خاص کر اس معاملے سے ہندوستان کے مسلمان کافی پریشان ہے حالانکہ این آر سی کے ہندوستان بھر میں نفاذ کی ابھی صرف باتیں ہورہی ہیں لیکن خوف وہراس کا ماحول آئے دن کافی تشویش ناک ہورہا ہے حالانکہ کئی دانشوروں کی جانب سے این آر سی کےلئے اپنے دستاویزات کی تیاری کے برعکس اس کے خلاف سراپا احتجاج بننے کےلئے عوام کو سڑکوں پر اترنے آنے کا مشورہ دیا جارہا ہے اور اب تو اس متنازعہ این آر سی کے خلاف گاندھیانہ طرز انداز اختیار کرنے کی بات شدت کے ساتھ اٹھائی جارہی ہے۔

این آر سی کے خلاف گاندھی کے بتائے ہوئے راستے کو اختیار کرنے کی بات کی جارہی ہے جس طرح ہندوستان کی جنگ آزادی میں گاندھی جی نے انگریزوں کے خلاف سیول نافرمانی کی تحریک چلائی تھی اسی طرح اب بی جے پی حکومت کی اس این آر سی سازش کے خلاف مسلمانوں کو سیول نافرمانی کی تحریک کا مشورہ دیا جارہا ہے۔

وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں 2019 کے انتخابات کے دوران سب سے پہلے یہ وعدہ دہرایا کہ ملک بھر میں شہریت کا امتحان لیا جائے گا۔انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ شہریوں کے قومی رجسٹر کا عمل شہریت (ترمیمی) بل کے تحت ہوگا۔ یہ بل اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہندو ، سکھ ، عیسائی ، بدھ مت ، جین اور پارسی جو بھی ہوں سوائے مسلمان کے سب کو  غیر قانونی تارکین وطن ہونے کا الزام عائد نہیں کیا جاسکتا ہے اگرچہ وہ کاغذات کے بغیر ہندوستان میں داخل ہوئے ہیں ۔امیت  شاہ نے 2019 کے انتخابات کے بعد سے زور دے کر یہ بیان کیا ہے کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ چونکہ شہریت (ترمیمی) بل این آر سی سے پہلے ہوگا  در حقیقت این آر سی کا اطلاق صرف مسلمانوں پر ہوگا۔ہندوستان کی مسلمانوں کی آبادی 170 ملین سے زیادہ ہے۔ ایک ایسی تعداد جو خود دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ لوگوں کی اتنی بڑی جماعت کی شہریت کی جانچ پڑتال کا عمل دنیا میں کہیں بھی غیر معمولی ہے۔ ملک بھر میں این آر سی نہ صرف سیکولر ہندوستان کے وجود کو دفن کرے گا بلکہ اس سے ملک کے استحکام کو شدید خطرہ ہوگا۔

خوف سے بائیکاٹ تک

اس خطرے سے دوچار ، بہت سارے مسلمانوں نے خوف و ہراس کا اظہار کیا ہے۔ ملک بھر میں مسلمان ایسی دستاویزات جمع کر رہے ہیں جو ان کی شہریت ثابت کریں گے۔ مغربی بنگال نے خودکشیوں کو دیکھا ہے جو ایک این آر سی کے خوف سے منسلک ہیں۔ این آر سی کا جو ابتدائی مرحلہ آسام میں ہو اہے اس کے پیش نظر ملک بھر میں این آر سی  صرف تباہی کا باعث بنے گا لہذا  این آر سی کے خلاف گاندھیائی شہری نافرمانی کو بڑھاوا دینے کا مسلم حلقوں میں ایک خیال بھی سامنے آیا ہے۔ این آر سی کے نام پر ہندستان کے تقریبا 200 ملین مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اس لئے  اس کا بائیکاٹ مانگ کی جارہی ہے تاکہ اس کے اثر کو ختم کیا جاسکے ۔

این آر سی کو فرقہ وارانہ طور پر استعمال  کیا جانے والا آلہ ٔ کار بنایا جارہا ہے  اور بہت سے لوگوں نے استدلال کیا کہ یہ نیک نیتی سے شہریت کی جانچ نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا ایک آسان طریقہ ہے۔بہت سے غریب مسلمانوں کے لئے  جن کے پاس کھانے کے لئے کافی مقدار میں خوراک تک نہیں ہے  وہ دستاویزات کو کیسے یقینی بناسکتے ہیں۔سابق آئی اے ایس افسر کنن گوپی ناتھ نے یہ مشورہ دیا ہے کہ دستاویزات کی تلاش میں گھبرانے کی بجائے ہندوستان کے شہریوں کو سڑکوں پر اترآنا چاہئے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ این آر سی منصوبہ واپس لیا جائے ۔

آسام این آر سی سے پیدا ہونے والے قانونی معاملات کا قریب سے مطالعہ کرنے والے  گوہاٹی میں مقیم امان وود نے  گوپی ناتھ کے اس نقطہ نظر کی بھی حمایت کی  اور مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ احتجاج کریں۔ گاندھی طرز کے احتجاج میں صرف مسلمانوں کو نہیں بلکہ  بائیکاٹ میں ہندوؤں کو بھی شامل ہونے کے لئے بھی سوشل میڈیا پر مطالبات سامنے  آئے ہیں ۔اس مسئلے نے ایک لاکھ سے زیادہ صارفین  کے ساتھ این آر سی موومنٹ نامی  فیس بک صفحہ کو بھی جنم دیا ہے۔

حراستی مراکز حکومت کے گلے ہی ہڈی بننے لگے

آسام میں این آرسی کے بعد جو لوگ اس سازش کو کھیل کا ذریعہ بنا رہے تھے اب وہ خود ہی اس کھیل کا حصہ بن گئے ہیں کیونکہ این آر سی میں جن لاکھوں افراد کا نام شامل نہیں ہیں ان کے لئے حراستی مراکز بنانے کا اعلان کیاگیا ہے لیکن یہ حراستی مراکز کوئی جیل نہیں ہوں گے بلکہ جن افراد کے نام رجسٹر میں شامل نہیں ہیں ان کے لئے ان مراکز میں رہائشی انتظامات ،اسکولس ،دواخانے اور دیگر بنیادی ضروریات فراہم کرنے پڑیں گے ۔

بی جے پی حکومت اور اس کی ہم خیال جماعتوں نے این آرسی کے نام پر بوتل سے جس جن کو باہر نکالا ہے اب وہ جن ا نکا آقا بنتا جارہا ہے کیونکہ این آرسی کے بعد حراستی مراکز کا مسئلہ حکومت اور انتظامیہ کےلئے گلے کی ہڈی بن گیا ہے جو نہ نگلا جارہا اور نہ ہی اگلا جارہا ہے ۔ این آرسی کے ابتدائی مرحلے میں 19 لاکھ افراد ایسے ہیں جو شہریت ثابت کرنے میں ناکام ہوئے ہیں لہذا اب ان 19 لاکھ افراد کےلئے حراستی مراکز قائم کئے جارہے ہیں لیکن ایک مرکز میں کتنے افراد کے رہائشی انتظامات اور قیام وطعام کی سہولت ہوگی یہ مسئلہ اہم بن چکے ہیں کیونکہ ایک حراستی مرکز میں صرف 3 ہزار افراد کو رہائش فراہم کی جاسکتی ہے اور ایک مرکز کو تیار کرنے کے لئے حکومت اور اانتظامیہ کو 46 کروڑ روپئے کے مصارف برداشت کرنے پڑرہے ہیں۔

آسام کی ریاستی اور ہندوستان کی مرکزی حکومت کو شہریت کے رجسٹریشن میں اپنا نام شامل کروانے میں ناکام 19 لاکھ افراد کےلئے حراستی مراکز کا قیام بہت ہی پیچیدہ مسئلہ بن چکا ہے کیونکہ ایک مرکز پر 46 کروڑ کے مصارف برداشت کرنے کے باجود اس میں صرف 3 ہزار افراد کو رکھا جاسکتا ہے تو اندازہ کیجئے کہ 19 لاکھ افراد کے لئے کتنے حراستی مراکز کی ضرورت ہے اور اس اس پر حکومتوں کو کتنا پیسہ خرچ کرنے پڑے گا؟